بنگلا دیش میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل یقین ہے۔ دو ماہ پہلے تک کون اس کے لیے تیار تھا۔ پچھلے پندرہ برسوں میں چارہ ہی کیا تھا سوائے فاطمہ حسن کی نظم ’’دیوی‘‘ زیر لب بڑبڑانے کے:
دیوی اپنی لمبی عمر کی خاطر۔۔ خون کی بھینٹ طلب کرتی ہے۔۔۔ راج سنگھاسن پر بیٹھی یہ دیوی۔۔ اپنی شکتی کو میرے بچوں کے معصوم، اُبلتے خون سے زندہ رکھتی ہے۔ دیوی ماں کوکھ اجڑنے کی تلخی کو۔۔ لمبی عمر کے ذائقے میں حل کردیتی ہے۔ اور۔۔ پی جاتی ہے۔ مائیں بچوں کو حسرت سے تکتی ہیں۔ ان کے خون کی قیمت کیا ہے۔۔ (خون کی قیمت خون)۔۔۔
دیوی ہم کو اپنا بچہ دے دے۔ ہم وہ تیری بھینٹ چڑھائیں۔ تیری لمبی عمر کی خاطر لیکن دیوی اور دیوتا لمبی عمر کی خاطر اپنے بچے دان نہیں کرتے۔ ان کے بچے مردہ محب وطنوں کے زرد لاشوں سے دور مغرب کی پناہ گاہوں پلتے، بڑھتے اور رہتے ہیں۔ ان بچوں کو تفتیشی سیلوں اور ’’آئینہ گھر‘‘ (حسینہ واجد کے دور کا بدنام زمانہ تفتیشی سیل) میں بھوک اور پیاس برداشت کرتے، کرہاتے ہنکاتے، درد اور اذیت سے گزرتے لوگوں کی طرح مالک کل سے موت کی دعائیں نہیں مانگنی پڑتیں۔ جاتے جاتے بھی یہ دیوی اندھا دھند فائرنگ سے 300 افراد کی جانیں لے گئی۔
ہم ان قصوں میں زندہ رہتے ہیں جو ہمارے لیے تھوک کے بھائو مینوفیکچر کیے جاتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کو بنگلا دیش میں بنگلا بندھو (بابائے قوم) پکارا جاتا تھا۔ دسمبر 1970 کے الیکشن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے 162 میں سے 160 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بنگلا دیش کی تاریخ میں ان سے زیادہ مشہور کوئی سیاست دان نہیں رہا۔ ان کا وژن سونار بنگلا دیش تھا۔ انہوں نے بنگالی عوام کو ایک استیصال سے آزاد ملک کا تصور دیا تھا۔ یہ سب سچ ہے لیکن پھرکیا ہوا کہ پانچ اگست کو ملک بھر میں لوگ ان کے مجسمے اور یادگاریں توڑ رہے تھے اور ایسا پہلی بار نہیں ہورہا تھا۔ ایسا اس لیے ہورہا تھا کیونکہ بنگلا دیش کے قیام کے بعد خود انہوں نے اپنے مختصر دور میں اور پھر اپنے طویل دور میں ان کی سیاسی جانشین نے بنگلا دیش کو اس قہر، جبر اور ظلم سے بھردیا تھا جس میں ہزاروں سمتوں سے غریبوں کا استیصال کیا جارہا تھا۔
شیخ مجیب الرحمن میانوالی جیل پاکستان سے رہائی پا کرجب بھارت پہنچے تو انہوں نے استقبالیہ تقریر میں بڑے والہانہ انداز میںجئے ہند اور جئے اندرا گاندھی کا نعرہ لگایا تھا۔ اس موقع پر شیخ مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ ’’میں نے بنگلا دیش جاتے ہوئے آپ کے اس عظیم ملک کے عظیم دارالحکومت میں رکنے کا فیصلہ کیا۔ میں اپنے لوگوں کے سب سے پیارے دوست، انڈیا کے عوام اور ہماری عظیم وزیر اعظم اندرا گاندھی کی قیادت والی حکومت کو خصوصی خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کم از کم اتنا ہی کر سکتا ہوں‘‘۔ پاکستان میں جو لوگ پاکستان سے غداری کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمن سے حسن ظن رکھتے ہیں وہ علٰیحدگی کے بعد مجیب الرحمن کا بھارت سے سلوک دیکھ لیں جنہوں نے بنگلا دیش کو بھارت کی کالونی بنا دیا تھا۔ حالیہ انقلاب کے بعد بنگلا دیش میں شیخ مجیب الرحمن کے ورثے کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے بھارت کا ایجنٹ بن کر جس طرح بار بار پاکستان کی تذلیل کی، بنگلا دیش کو ایک سیکولر اور سوشلسٹ ریاست بنانے کی کوشش میں ایک ڈکٹیٹر اور جابر کی طرح جیسے حکومت کی بنگالیوں نے اسے کبھی پسند نہیں کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کی توڑ پھوڑ سے ثابت ہو گیا ہے کہ بنگالی جان گئے ہیں کہ ان کا اصل دشمن کون ہے۔
تھوک کے بھائو ہمیں مسلسل بتایا جارہا تھا کہ حسینہ واجد کی قیادت میں 2009 سے لے کر آج تک بنگلا دیش کی معیشت تین گنا رفتار سے بڑھی ہے۔ بنگلا دیش کا شمار خطے میں سب سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں میں ہونے لگا ہے جس کی ترقی کی رفتار بھارت سے بھی تیز ہے۔ بنگلا دیش نے 2009 کے بعد ہر سال اوسطاً 6 فی صد سے زیادہ رفتار سے ترقی کی ہے جو دنیا کے لیے حیرت انگیز تھی۔ یہ وہ شرح ترقی ہے جو ہمیں ایک مرتبہ صرف ایوب خاں کے دور میں نصیب ہوئی تھی۔ ملک کے 175 ملین لوگوں میں سے 95 فی صد کو بجلی میسر آنے لگی ہے۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں 2021 میں بنگلا دیش نے بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق گزشتہ ایک دھائی میں بنگلا دیش میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے باہر آئے ہیں۔ بنگلا دیش دنیا کا چوتھا سب سے بڑا چاول، دوسرا سب سے بڑا پٹ سن، چوتھا سب سے بڑا آم اور سبزیاں سپلائی کرنے والا ملک ہے۔ بنگلا دیش کی گارمنٹس کی صنعت کی دنیا میں دھوم ہے۔ شیخ حسینہ نے جو بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے، ان میں دو ارب 90 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا ’پدما برج‘ بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی حکومت کیوں گری؟ اس تیز رفتار اور شاندار ترقی کے باوجود حسینہ واجد اپنے ہی عوام میں اتنی غیر مقبول کیوں ہوتی چلی گئیں کہ ان کی انتہائی نفرت کا نشانہ بن گئیں؟
تھوک کے بھائو ہمیں یہ سب کچھ تو بتایا گیا لیکن دنیا کے تمام بڑے اکنامسٹ جب حسینہ واجد کے بنگلا دیش کو ایک نیو لبرل ماڈل ملک کے طور پر پیش کرتے تھے تب وہ یہ بتانا بھول جاتے تھے کہ یہ لبرٹی اور آزادی غریبوں کے لیے نہیں بلکہ امیروں، سرمایہ داروںاور انویسٹروں کے لیے تھی جیسا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہوتا ہے۔ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ فراہم کرنے کے لیے، ٹیکسوں میں بے تحاشا چھوٹ دینے کے لیے، مشینری درآمد کرنے میں رعایتیں دینے کے لیے آفرز دیتی نہیں تھکتی تھیں۔ ایک مضمون میں وہ لکھتی ہیںکہ ’’اگر سرمایہ دار بنگلا دیش چھوڑ کر جانا چاہیں تو اپنا پورا سرمایہ مع منافع کے لے کر جاسکتے ہیں ہم ان کو نہیں روکیں گے‘‘۔ وہ ایک سو کے قریب اکنامک زونز بنارہی تھیں جہان ون ونڈو سروس ہونا تھی۔ یہ سب کچھ سچ ہے لیکن اس سے بھی بڑا بلکہ بہت بڑا سچ یہ بھی ہے کہ اس نیو لبرل ماڈل ڈیولپمنٹ کے نتیجے میں امیر امیر تر ہوتا جارہا تھا جبکہ غریب، غریب ہی رہا۔ غربت میں کمی کا دعویٰ اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔ ملک کی مجموعی دولت کا 30 فی صد سرمایہ داروں کی تجوریوں میں جب کہ چالیس فی صد دولت ٹاپ ٹین سرمایہ داروںکے پاس ہے جب کہ نچلی سطح پر پچاس فی صد لوگوں کے پاس بنگلا دیش کی دولت کا کل بیس فی صد ہے۔ بنگلا دیش کے سرمایہ دار آزاد ہیں کہ اپنا سرمایہ آف شور اکائونٹس میں لے جائیں جہاں کوئی ٹیکس نہیں لیے جاتے۔
بنگلا دیش میں بھی پاکستان کی طرح ٹیکسوں کا وہ نظام ہے جس میں غریب اور متوسط طبقات سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جب کہ امیروں سے کم سے کم یا ٹیکس لیا ہی نہیں جاتا۔ بنگلا دیش میں بھی ڈائریکٹ ٹیکسز کم وصول کیے جاتے ہیں جب کہ ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن بہت زیادہ ہے۔ آمدنی کے اعتبار سے جن کا بوجھ امیروں پر کم اور غریبوں پر زیادہ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں امیر امیر تر جب کہ غریب پس کررہ جاتا ہے۔ بنگلا دیش میں امیروں کی آمدنی غریبوں کے مقابلے میں 80 گنا زیادہ ہے۔ پچھلے برسوں سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے خصوصاً کھانے پینے کی اشیا میں 9 سے 400 فی صد تک۔ بنگلا دیش میں 18 ملین نوجوان بے روزگار ہیں۔ (جاری ہے)