ہمارے یہاں کیا مغربی دنیا میں بھی خواتین کی آزادی کی تحریک کو ایک سیدھی سادی حقوق کی جنگ سمجھا جاتا ہے۔ ایسی جنگ جس کے لیے ہر جواز اور ہر منطق موجود ہے اور جس کا لڑا جانا نہایت ضروری ہے۔ تاہم ان خیالات میں سادہ لوحی کی فراوانی اور حقیقت احوال کی شدید قلت ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید مغربی فکر میں آویزش، تصادم اور دوئی کے تصورات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جدید مغربی فلسفے کے باوا آدم ڈیکارٹ کے یہاں ذہن اور مادے کی پیکار پیدا ہوئی اور یہ پیکار کہیں حل (Resolve) نہیں ہو پائی۔ ڈارون اور اسپینسر کے یہاں ’’جُہد للبقا‘‘ اور ’’فطری انتخاب‘‘ کے تصورات موجود ہیں جن میں مقابلہ طاقتور اور کمزور کے مابین ہے اور فیصلہ یہ ہے کہ زندہ و ہی رہے گا جو طاقتور ہے۔ ہیگل کے نظام کو ’’کامل‘‘ سمجھا گیا ہے لیکن اس کاملیت کا منظر یہ ہے کہ اس میں ایک طرف دعویٰ یا Thesis ہے اور دوسری طرف جواب دعویٰ یا Anti Thesis اور ان کی باہمی آویزش سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ Synthesis ہے۔ ہیگل نے کہا یہ ہے کہ ایک خیال ہوتا ہے جس سے کچھ عرصے بعد اس کی ضد پیدا ہوتی ہے اور ان کے باہمی تصادم سے ایک تیسرا اور بہتر خیال پیدا ہوتا ہے اور انسانی فکر اور تاریخ کا سفر یونہی جاری رہتا ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ ہیگل سر کے بل کھڑا تھا، میں نے اسے سیدھا کر دیا۔ لیکن بہر حال اس کے باوجود مارکس کے یہاں بھی تاریخ کا سفر تین تصورات کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ کا قصہ بھی یہی ہے۔ اس کے یہاں Supression, Repression اور Expression کے تصورات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جبلّی خواہشات کو دبایا اور کچلا جاتا ہے اور سارے نفسیاتی مسائل اسی لیے پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم اگر ایسا نہ کیا جائے تو انسان نفسیاتی طور پر صحت مند رہ سکتا ہے۔ فرائیڈ کے خلاف اس کے شاگرد رشید ژنگ کی بغاوت بہت مشہور ہے اور ژنگ کے بارے میں اچھے اچھوں کی رائے یہ ہے کہ اس کے یہاں روحانیت ہے۔ اس حوالے سے ژنگ کے اجتماعی لاشعور اور آرکی ٹائپس کا بڑا ذ کر ہوتا ہے لیکن ژنگ نے مشرقی فکر کی ترجمان ایک کتاب کے دیباچے میں صاف لکھا ہے کہ آر کی ٹائپس کی جڑیں ’’جبلت‘‘ میں پیوست ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کی جڑیں جبلت میں پیوست ہوں وہ تصادم اور آویزش کے تصورات سے کیسے بے نیاز ہوسکتی ہے۔ ژنگ کے بعد ایڈلر صاحب فرائڈ کے ایک اور اہم شاگرد سمجھے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فرائڈ سے الگ راہ نکالی ہے، تاہم ان کے یہاں ’’احساس کمتری‘‘ کا تصور اساسی اہمیت کا حامل ہے، اور وہ تہذیب اور انسان کی مادّی ترقی کو اسی احساس کمتری کا نتیجہ تصور کرتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہن ٹنگٹن صاحب تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نظریہ پیش فرما رہے ہیں۔ یقینا اس نظریے پر سی آئی اے اور پینٹاگون کا سایہ بھی ہو گا لیکن یہ نظریہ جدید مغرب کی ’’گھٹی‘‘ سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔
مغرب میں خواتین کی آزادی کی تحریک صنعتی نظام کی ضرورتوں کا شاخسانہ تھی لیکن اس کے لیے ذہنی فضا پہلے سے تیار تھی۔ مغربی فکر زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشے میں آویزش اور تصادم تلاش کر چکی تھی، چنانچہ خواتین اگر خاندانوں کی گرفت اور مردوں کی بالا دستی کے خلاف صف آرا ہو گئیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ برابری اور مساوات کا تصور بظاہر بڑا دلکش ہے اور ’’سامنے کی بات‘‘ نظر آتا ہے لیکن اس میں مذہب کے تصور زندگی اور تصور کائنات سے ہولناک انحراف کے علاوہ ’’ماتحت‘‘ کے خلاف اندھا رد عمل بھی شامل ہے۔ کیونکہ اس تصور میں یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ جو ماتحت ہے وہ کمزور ہے اور کمزور کو طاقتور فنا کر دے گا۔ چنانچہ بقا کی واحد صورت یہ ہے کہ طاقتور کے ’’برابر‘‘ درجہ حاصل کیا جائے۔ اس طرز فکر اور طرز احساس پر ڈارون کے نظریہ نما مفروضے کا اثر اتنا گہرا ہے کہ اس کی نشاندہی کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی لیکن یہ طرز احساس جس دنیا میں عام ہوا اس دنیا میں ایسے حقائق کا ادراک دشوار تھا کیونکہ تحریک آزادی نسواں کا ’’نظریاتی جوش‘‘ ازلی وابدی حقیقت بنا ہوا تھا۔ آج اگر چہ مغرب میں بھی یہ جوش موجود نہیں، تاہم یہ جوش ایسے تعصبات پیدا کر چکا ہے جو انسان اور حقیقت کے مابین پردوں کا کام دے رہے ہیں۔ تاہم ان پردوں نے مغرب میں مرد اور عورت کے خوبصورت رشتے میں زہر گھول دیا ہے اور خاندان کے ادارے کا جنازہ نکال دیا ہے۔ برابری اور آزادی کی یہ اتنی بڑی صورت قیمت ہے کہ مغربی تہذیب کا حال اور مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
مغرب میں اگر چہ عمرانیات اور نفسیات کو بڑا فروغ حاصل ہوا اور ماحول کے اثرات کے تصور کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی لیکن تحریک آزادی نسواں کی علمبرداروں نے کبھی اس نکتے پرغور کرنے کی ضروت محسوس نہیں کی کہ اگر مرد و اقعتا ظلم و زیادتی کی علامت ہے تو اس ظلم و زیادتی کا تعلق معاشرے، سماجیات اور انفرادی و اجتماعی نفسیات سے ہے۔ چنانچہ مرد کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے، سماجیات اور اجتماعی نفسیات میں بہتری کی راہ ہموار کی جائے۔ مغرب میں مرد کے احساس برتری کے ارتقا کے تصور پر بہت کام ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مرد سماجی اور جنسی سلسلے میں کیسے بچپن سے جوانی تک اپنی انفرادیت اور برتری کے تصور کی تخلیق کرتا ہے لیکن مغرب کے ماہرین خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین یہ باتیں بیان کر کے رہ جاتے ہیں اور کسی اصلاحی نقطہ نظر کو اختیار نہیں کرتے۔ جس سے احساس ہوتا ہے کہ یہ باتیں ایقان کم اور رد عمل زیادہ ہیں۔
آویزش، تصادم اور کشمکش کوئی مفروضہ نہیں، یہ زندگی کا حصہ ہیں لیکن زندگی ان سے بلند ہو کر ہی زندگی بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاہب اور خاص طور پر اسلام میں مرد اور عورت کا تعلق ایک تکمیلی (Complimentry) تعلق ہے۔ ایک سطح پر وہ جسمانی تکمیل کا مظہر ہیں۔ دوسری سطح پر جو کہ بلند ترین سطح ہے وہ کائناتی اصولوں کی تکمیل کی علامت ہیں۔ ان دو سطحوں کے درمیان کئی اور سطحیں بھی ہیں لیکن یہ تمام سطحیں تکمیلی تعلق سے منسلک ہیں۔ انسان تکمیلی تعلق کا حقیقی معنوں میں قائل ہو جائے تو پھر برتری اور کمتری کا ہر تصور بے معنی ہو جاتا ہے اور تخلیق کا مقصد ہر چیز پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے ایک مقصد کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے اور ہر شے کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کرلے۔ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں ، وہ سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے اور اس فعل کی وجہ سے چاند، چاند بنتا ہے لیکن فرض کیجیے چاند اپنی روشنی پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہو جائے اور وہ اس امر پر احتجاج کرنے لگے کہ وہ روشن ہونے کے لیے سورج کا محتاج کیوں ہو تو یہ کیسی بات ہوگی؟ کیا چاند اس صورت میں اپنے مقصد تخلیق سے بغاوت و انحراف کا مرتکب نہیں ہو گا؟ شہد کی مکھیوں کو کبھی اس امر پر احتجاج کرتے نہیں دیکھا گیا کہ رانی مکھی بیٹھی رہتی ہے اور شہد فراہم کرنے کا سارا بار وہ اُٹھاتی ہیں۔ ان کے مابین کوئی صنفی یا طبقاتی کشمکش اور آویزش بر پا نہیں ہوتی، اس لیے کہ وہ اپنے مقصد تخلیق سے وفادار ہیں۔ مگر انسان رائے رکھتا ہے اور اس رائے پر اصرار کرتا ہے۔ رائے رکھنا اور رائے پر اصرار کرنا غلط نہیں لیکن رائے اور اس پر اصرار کا تعلق ’’اصول‘‘ سے ہونا چاہیے مگر جدید مغرب تو اْصول کو مانتا ہی نہیں، اس کے لیے تو خواہش ہی اصول ہے۔