فاضل جج صاحب کے نزدیک اس تحریر میں زور دیا گیا تھا: اس پہلو کی کوئی وضاحت یا اس اعتراض کو تسلیم کرنے کی بابت اس فیصلے میں کوئی بات نہیں ہے۔ حالانکہ اصل زور اس پر نہیں‘ بلکہ مقدمے میں قانون کے اطلاق پر تھا۔ صرف کونسل کے جواب میں یہ کہا گیا ہے: ’’سیاق وسباق کے ساتھ اس کا تعلق سمجھنے کے بجائے کونسل نے اپنی رپورٹ میں ان آیات کا حوالہ دینے کو بے محل قرار دیتے ہوئے کہا‘‘۔ (پیراگراف: 17) سوال یہ ہے: اگر عدالت کی رائے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے تمام ارکان اور وہ پانچ ادارے جن سے عدالت نے اعانت طلب کی تھی‘ ان آیات کے ساتھ مقدمے کے تعلق یعنی سیاق وسباق کو نہیں سمجھ سکے تھے‘ تو عدالت خود بتلا دیتی کہ ان آیات کا حوالہ اس مقدمے کے سیاق وسباق کے کس طرح مطابق تھا۔ لیکن یہ زحمت بھی گوارا نہیں فرمائی گئی اور اس مقدمے میں ان آیات کے بے محل حوالے سے شرعی احکام اور آئین کے خلاف جو غلط تاثر پیدا ہو رہا ہے‘ وہ جوں کا توں برقرار ہے۔ پیراگراف 21 میں کہا گیا ہے: ’’پانچ اداروں کے مشترکہ موقف میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ جس تقریب میں ’’مَسئْول علیہ‘‘ پر کتب کی تقسیم کا الزام تھا‘ وہ مدرسۃ الحفظ‘ عائشہ اکیڈمی ومدرسۃ البنات کی تقریب تھی اور ان ناموں سے عام مسلمان دھوکے میں پڑ سکتے ہیں۔ کیا احمدیوں کے ادارے کے لیے ایسا نام رکھنے پر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298C کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ سوال عدالت کے سامنے نہیں ہے‘ نہ ایف آئی آر میں مسئول عَنہ پر یہ الزام ہے کہ یہ نام اس نے رکھے تھے‘‘۔
نام رکھنے کا ذکر ہم نے دوسری باتوں سے ہٹ کر تنہا نہیں کیا تھا‘ بلکہ وہ افعال کے ایک مجموعے کا حصہ تھا۔ ہم نے لکھا تھا: ’’تفسیر کے نام سے جن تین کتابوں کا ذکر ہے‘ وہ متفقہ طور پر قادیانیوں کی ہیں‘ ان میں قرآن کریم کے اصل متن کے ساتھ خود ساختہ ترجمہ اور تفسیر کر کے معنوی تحریف کی گئی ہے‘ مثلاً: آخرت کے معنی مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدہ کے مطابق اتنے واضح ہیں کہ اس کے ترجمے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن نام نہاد ’’تفسیر صغیر‘‘ میں اس کی تشریح ’’آئندہ ہونے والی موعود باتوں (مسیح موعود)‘‘ سے کی گئی ہے۔ اس سے انہوں نے اپنے عقیدے کو قرآنِ کریم پر تھوپنے کی کوشش کی ہے کہ ’’العیاذ باللہ! مرزا غلام قادیانی مسیحِ موعود تھا‘‘۔ نوٹ: ہم تفسیر صغیر میں مزید معنوی تحریفات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
یہاں اصل مسئلہ یہ تھا: ان تحریف شدہ نام نہاد تفسیروں اور ترجموں کو پڑھانا دفعہ 298C میں بیان کردہ جرائم کے تحت داخل ہیں یا نہیں۔ شکایت کنندہ کے نزدیک یہ اعمال دفعہ 298C کے تحت آتے ہیں‘ کیونکہ قرآنِ کریم کے عربی متن کے ساتھ تحریف شدہ ترجمہ اور من مانی تفسیر دوسروں کو پڑھانا اور اس کے لیے مدرسۃ الحفظ کے نام سے مدرسہ قائم کرنا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اور قادیانی عقائد کی تبلیغ وتشہیر میں داخل ہے‘ جبکہ مدرسہ مسلمانوں کی اصطلاح ہے‘ پس ضروری تھا: زیرِ نظر مقدمے میں اس پہلو پر بحث کی جاتی‘ لیکن تفصیلی بحث کے بغیر معزز عدالت نے حتمی رائے قائم کر لی‘ یہ عدل کے فطری اصولوں کے خلاف ہے‘ کیونکہ ٹرائل کورٹ میں ابھی شہادتیں پیش کی جا رہی ہیں‘ ملزَم کا نہ بیان ریکارڈ ہوا ہے اور نہ اس پر جرح ہوئی ہے اور یہ بحث بھی باقی ہے کہ شہادتوں کی روشنی میں 298C کا جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ٹرائل کورٹ سے پہلے ہی عدالت عظمیٰ کو خود ہی کوئی فیصلہ کرنا تھا تو اس پہلو پر عدالت عظمیٰ میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے تھی۔ انصاف کے اس واضح تقاضے کے باوجود سرسری طور پر یہ کہہ کر اس دفعہ کو حذف کرنے کا حکم دے دیا گیا کہ اگر قرآنی احکام اور آئین کو مدِنظر رکھا جاتا تو مقدمہ درج ہونا ہی نہیں چاہیے تھا‘ نیز ایف آئی آر‘ چالان اور فردِ جرم میں ایسے کسی فعل کا ذکر نہیں جو اس دفعہ کے تحت جرم ہوتا ہے‘ حالانکہ تینوں جگہ ایسے افعال کا ذکر ہے جو واضح طور پر دفعہ 298C کے تحت آتے ہیں۔
نیز دفعہ 295B کے بارے میں ہم نے لکھا تھا: ’’اس دفعہ کو حذف کرنے کے لیے بھی اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت تھی کہ معنوی تحریفات پر مشتمل ایک کتاب کو قرآنِ مجید کہہ کر پڑھانا اور اس کے ٹائٹل پر ایک غیر مسلم کو ’’خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ‘‘ کہہ کر مترجم قرار دیا جانا اس دفعہ کے اطلاق کے لیے کافی ہے‘ کیونکہ ’’خلیفۃ المسیح‘‘ اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ اسلامی اصطلاحات ہیں۔ پس سوال تو پیدا ہوتا ہے: اس دفعہ کے تحت قرآنِ کریم کی تحریف یا بے حرمتی یا اْسے غیر قانونی مقصد کے لیے استعمال کرنا کہلائے گا یا نہیں‘‘۔ اس کی تشریح کی بابت فیصلہ خاموش ہے۔ الغرض تمام خدشات سے مکمل صَرفِ نظر کر کے صرف ایک مدرسے کے نام کی بابت جواب دے دینا کہ یہ مسئلہ ہمارے سامنے نہیں ہے‘ انصاف کے تقاضوں کو کس طرح پورا کر سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے: ہم نے ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ کے فیصلے سے نہ انحراف کیا ہے‘ نہ کر سکتے تھے۔ مگر مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے: ’’اس فیصلے کا پیراگراف 42 قانون‘ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ تینوں سے متصادم ہے‘‘۔ البتہ اس فقرے کا دوسرا حصہ: ’’ہم انحراف نہیں کر سکتے تھے‘‘ ایک قانون کا سوال ہے اور یہ بات درست ہے۔ لہٰذا جیسے اوپر عرض کیا گیا ہے: واقعے کے سوال کے بارے میں قانون اور مذکورہ بالا دو فیصلوں ہی کو برتری حاصل ہے۔
نظر ثانی فیصلے کے پیراگراف 6 میں ایک بار پھر یہ بحث چھیڑی گئی ہے‘ جس کا جواب ہم عدالتی اعانت کے لیے اپنے سابق موقف میں دے چکے تھے‘ وہ یہ کہ آئین کا آرٹیکل 12 (1) کہتا ہے: ’’قانون کسی ایسے شخص کو سزا دینے کا اختیار نہیں دے گا: (الف) کسی ایسے فعل کے ارتکاب یا ترک پر جو اس فعل کے ارتکاب یا ترک کے وقت قابلِ سزا جرم نہیں تھا۔ (ب) کسی جرم کے ارتکاب یا ترک پر ایسی سزا دینا جو ارتکابِ جرم کے وقت نافذ العمل سزا سے زیادہ ہو‘‘۔ یعنی کوئی قانون موثر بہ ماضی (Retrospective) نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواب ہم معترضہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے دے چکے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ اسے پڑھے اور سمجھے بغیر نظر ثانی فیصلے میں دوسری بار اسی غلطی کا اعادہ کر دیا کہ 2019ء کے قانون میں قابلِ اعتراض کتاب کے طابع‘ ناشر یا ریکارڈ رکھنے والے اور مرتب کو مجرم قرار دیا گیا تھا‘ جبکہ 2021ء کے قانون میں تقسیم کنندہ (Disseminator) کو بھی مجرم قرار دے دیا گیا تھا‘ تو عدالت کی نظر میں مبارک ثانی پر 2021ء کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا‘ اس کی بابت ہم نے لکھا تھا: ’’اگر جرم وقتی نوعیت کا تھا‘ جس کا ارتکاب کیا گیا اور قصہ ختم ہوگیا تو یقینا مابعد قانون کا اس پر اطلاق نہیں ہو گا۔ لیکن جرم اگر ایسا ہے کہ نئے قانون کی آمد کے وقت بھی جاری ہے تو یقینا مابعد قانون کا بھی اس پر اطلاق ہوگا۔ کیا عدالت نے اس بات کی تحقیق کر لی تھی کہ نئے قانون کی آمد کے وقت وہ شخص جرم سے دستبردار ہو چکا تھا یا اس کتاب کی تقسیم روک دی گئی‘ یہ کام اپیلٹ کورٹ کا نہیں‘ بلکہ ٹرائل کورٹ کا ہے‘ ٹرائل کورٹ میں تو ابھی مجرم کا بیان ریکارڈ ہوا تھا اور نہ اس پر جرح ہوئی تھی‘ تو عدالت عظمیٰ نے یہ رائے کیسے قائم کرلی۔ اس پیرا گراف میں النساء: 23 سے بھی غلط استدلال کیا گیا‘ وہاں محرمات نکاح کا بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’ماضی (زمانۂ جاہلیت میں) جو ہو چکا‘ سو ہو چکا‘ یعنی اْن سے ہونے والی اولاد صحیح النسب قرار پائے گی‘ لیکن حرمتِ نکاح کی آیت نازل ہوتے وقت اگر کسی کے نکاح میں بدستور صْلبی بیٹے کی مطلقہ بیوی یا بیک وقت دو بہنیں نکاح میں ہیں‘ تو صْلبی بیٹے کی مطلقہ بیوی اور اس شخص میں فوراً تفریق کر دی جائے گی اور دو بہنوں میں سے ایک کو چھوڑنا ہو گا‘‘۔ الغرض یہ سیدھا سادہ ضمانت کا کیس تھا۔
نوٹ: ہم بصد ادب علمائے کرام اور خطبائے عظام سے گزارش کرتے ہیں: ختمِ نبوت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے‘ اس پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا عدالتی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں متانت‘ وقار اور اسلامی اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے۔