پاک جاپان سفارتی تعلقات تاریخی تناظر میں (2)

425

جاپان میں پاکستان کے پہلے سفیر میاں ضیاء الدین تھے جو 18 اپریل 1952 کو مقرر کیے گئے جبکہ پاکستان کے لیے جاپان کے پہلے سفیر کیوشی یاماگاتا تھے جو 4 ستمبر 1952 کو کراچی پہنچے۔ آنے والے وقت میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ حاصل ہوا اور اپریل اور مئی 1957 میں پاکستان اور جاپان کے درمیان اعلیٰ سطح کے دوروں کا تبادلہ بھی ہوا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ تعلقات کی گرم جوشی کے باوجود اہم علاقائی امور پر دونوں ممالک کے موقف مختلف تھے۔ جاپان تنازع کشمیر پر ابتدا ہی سے غیر جانبدار رہا۔ ابتدائی دور میں جاپان نے کشمیر میں استصواب رائے کی وکالت کی لیکن بعد میں اپنا موقف تبدیل کر دیا۔ جاپان نے عوامی جمہوریہ چین کے خلاف تائیوان کی حمایت کی لیکن پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین کو چین کے عوام کی واحد اور جائز حکومت کے طور پر تسلیم کیا اور ون انا پالیسی کی حمایت کی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے قیام کے حوالے سے پاکستان چاہتا تھا کہ جاپان پہلے تمام ایشیائی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے اور اسے بحال کرے، پاکستان کی رائے یہ تھی جاپان کو بطور جارح ملک دیکھے جانے کے بجائے تعاون کرنے والے مفاہمت پسند ملک کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ دونوں ممالک کی باہمی سفارت کاری نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دیا، جس سے دوسرے ایشیائی ممالک جیسے کہ چین اور دونوں کوریا کے ساتھ جاپانی تعلقات کو معمول پر لانے کا ماحول پیدا ہوا جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ممالک (جنوبی ایشیا میں پاکستان اور شمال مشرقی ایشیا میں جاپان) ایشیا میں امریکا کی زیر قیادت جاری سرد جنگ میں امریکی حلیف تھے۔

12 تا 19 دسمبر 1960کے دوران صدر محمد ایوب خان نے جاپان کا دورہ کیا۔ جس کی دعوت انہیں جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے فروری 1960 میں دی تھی، ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کا ایک اور منفرد پہلو تھا۔ جاپان یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اس نے سان فرانسسکو معاہدے کی روح کو مکمل طور پر ضم کر لیا ہے اور وہ دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کے لیے یہ دورہ اقتصادی وجوہات کی بنا پر بہت اہم تھا۔ مزید یہ کہ امریکا اپنے دونوں اتحادیوں کے درمیان تعاون کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ صدر ایوب کا یہ دورہ ان دنوں جاپان کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ سمجھا گیا اور شہنشاہ جاپان کی جانب سے وزیراعظم جاپان نے ان کا فقید المثال استقبال کیا۔

اس دورے کو اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی بہت اہم سمجھا گیا خصوصاً عالمی مبصرین نے صدر ایوب کا امریکی سمندری اڈے اوکیناوا پر رکنے کو خصوصی اہمیت دی جہاں امریکی ہائی کمشنر جنرل ڈونلڈ پرینٹس بوتھ نے پہلی بار اڈے پر ایک غیر امریکی اور غیر جاپانی رہنما کا استقبال کرتے ہوئے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ اس سے سرد جنگ کے دوران جاپانیوں، امریکیوں اور پاکستانیوں کے درمیان واضح اعتماد کا اظہار سمجھا گیا۔ صدر ایوب کے دورۂ جاپان کے بعد، وزیراعظم حیاتو اکیڈا نے اپنے ایشیائی دورے کے ایک حصے کے طور پر 17-20 نومبر 1961 کو پاکستان کا جوابی دورہ کیا، جس میں انہوں نے پاکستان کو 20 ملین ین کے قرض کی پیشکش کی۔ واضح رہے کہ اسے جاپان کی جانب سے پاکستان کو دیا جانے والا پہلا قرض سمجھا جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات فروغ پاتے گئے اور باہمی سفارت کاری کو فروغ دیتے ہوئے سابق شہنشاہ جاپان اور اس وقت کے ولی عہد شہزادہ اکی ہیٹو اور شہزادی میچیکو نے 23-29 جنوری 1962 کے درمیان پاکستان کا دورہ کیا، اپنے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات کو سراہتے ہوئے انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’اس وقت جب کہ ایشیا میں دیگر ممالک کے ساتھ جاپان کو تعلقات بہتر بنانے اور معمول پر لانے میں رکاوٹیں حائل ہیں اور جاپان کو اس کے لیے معاوضہ دینا پڑرہا ہے پاکستان اور جاپان نہ صرف ثقافت اور تہذیب کے پرانے رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ تجارت اور تعاون کے جدید تعلق سے بھی منسلک ہیں، جاپان اور پاکستان دونوں نے پہلی بار سوچ کی ایک منفرد شناخت تیار کی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام امن کے لیے اپنی گہری محبت کی وجہ سے عالمی رائے عامہ پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کرنے کے قابل ہیں‘‘۔

ممالک کے سفارتی تعلقات میں دو طرفہ رابطے باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں اور ان تعلقات پر ریاستی پالیسیوں سمیت، معاشی، جغرافیائی اور تاریخی حقائق بھی اثرات مرتب کرتے ہیں، چنانچہ پاکستان اور جاپان کے سفارتی تعلقات میں اس وقت گرم جوشی کم ہونا شروع ہوئی جب پاکستان نے ایک واضح ون چائنا پالیسی اختیار کی اور اس پالیسی کے نتیجے میں جاپان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک مختلف راستے پر جاتے محسوس ہونے لگے، جس کا آغاز 1960 کے عشرے میں اس وقت ہوا جب جاپان نے پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کو چین کے اندر سے پرواز کرنے کے لیے لینڈنگ کے حقوق نہیں دیے تھے

جبکہ چین پی آئی اے کے مجوزہ روٹ کا حامی تھا جس سے جاپان کے سفر کے لیے پاکستان اور جاپان کے درمیان شہری ہوا بازی کے معاہدے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

مبصرین کی رائے میں پاکستان کی سول ایوی ایشن روٹ کی تجویز دراصل چین جاپان تعلقات کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا حصہ تھا لیکن جاپان نے اس کی پزیرائی نہیں کی، اس طرح جاپان پاکستان تعلقات میں سرد مہری کا عنصر نظر آیا جس نے پاکستان کو چین کی طرف مزید مائل کیا۔ (جاری ہے)