ایک بہت پرانا لطیفہ یونہی تو یاد نہیں آیا بس یاد آگیا۔ وہ یہ کہ ایک دفعہ سکھوں کا ایک گروپ غیر قانونی طور پر جعلی کاغذات کے ذریعے برطانیہ میں داخل ہورہا تھا۔ چیک پوسٹ پر چیکنگ ہورہی تھی۔ عموماً لطیفے سکھوں پر بنائے جاتے ہیں اور حسب ضرورت مطلوبہ قومیت کے نام ڈال دیے جاتے ہیں۔ اس لیے اسے سچا واقعہ نہ سمجھا جائے۔ جب گروپ کے ۱۷ افراد نکل چکے تو اٹھارویں سے امیگریشن افسر نے سپاٹ لہجے میں مذاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاغذات اصلی ہیں یا کسی سے جعلی بنوا کر لائے ہو۔ بس جناب یہ تو پہلے ہی کنفیوژ تھا کہنے لگے مجھے کیا پتا پورے پیسے دے کر کاغذات بنوائے ہیں۔ اس پر امیگریشن والوں نے تفصیلی جانچ کی تو پتا چلا کہ کاغذ جعلی ہے۔ چنانچہ اسے سائڈ میں کھڑا کرکے کہا گیا کہ یہاں رکو تمہیں واپس بھیجا جائے گا۔ بس جناب اس نے آواز لگانا شروع کی اوئے بلبیر سنگھ، دلبر سنگھ، مہندر سنگھ وغیرہ ایک ایک کرکے سب کے نام لے کر کہا اسی سارے پھڑے گئے نے… واپس آجائو اور بالآخر سارے ہی پھڑے گئے۔
تو یہ لطیف یوں یاد آیا کہ آج کل ہمارے وزیراعظم کچھ ایسا ہی کررہے ہیں۔ انہوں ملکی ترقی کے لیے پاور سیکٹر اور ایف بی آر کی بحالی کو اپنی ترجیحات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے بوسیدہ ملکی نظام کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہمیں ۷۷ سال کی بیماریوں سے جان چھڑانی ہے، ہر سال ۵۰۰ ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور یہ سب ملی بھگت سے ہورہا ہے، درآمدی ایندھن سے چلنے والے گھسے پٹے منصوبے بند پڑے ہیں، بعض بند پلانٹ اسکریپ ہوچکے ہیں مگر وہاں بھی تنخواہوں اور مراعات کے نام پر اربوں روپے دیے جارہے ہیں۔ غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنا ناگزیر ہے۔ وزیراعظم ۷۷ سال کے بوسیدہ نظام کی بات کررہے ہیں اس میں سے ۳۰ سال براہ راست فوجیوں کا اقتدار رہا اور بقیہ عرصے میں فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاستدانوں کا یعنی میاں شہباز شریف اپنی ہی حکومت کے بارے میں ایف آئی آر درج کرا رہے ہیں۔ یہ پانچ سو ارب روپے کی بجلی چوری کس کی ملی بھگت سے ہورہی ہے۔ دو سال سے آپ ہی حکمران ہیں اس سے قبل آپ کے بھائی اور آپ کے حلیف پیپلز پارٹی والے یا آپ کے مائی باپ فوجی جرنیل۔ اس نظام کی بوسیدگی میں بڑا حصہ تو آپ ہی کا ہے۔ چار مرتبہ مسلم لیگ کا، چار مرتبہ پیپلز پارٹی کا اور چار مرتبہ فوج کا باقی ان سب کے لوٹوں کا جو تحریک انصاف میں جا بسے تھے۔ گویا یہ بوسیدہ نظام کے خلاف اسی کے گھر سے گواہی ہے۔ شہباز شریف صاحب اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ ایف بی آر پندرہ سو ارب روپے کا ٹیکس کم وصول کررہا ہے تو یہ کس کے ماتحت ادارہ ہے۔ اگر وہ یہ نااہلی کررہا ہے تو اس کا ذمے دار حکومت کو قرار دیا جائے یا عوام پر ٹیکس لاد دیے جائیں۔ وزیراعظم نے درآمدی ایندھن سے چلنے والے گھسے پٹے منصوبے بند ہونے کی بات کی ہے۔ یہ منصوبے بھی یا تو ان کی حکومت کے ہیں یا ان کے حلیفوں یا مائی باپ فوجی حکمرانوں کے ہیں۔ اور اسکریپ پلانٹس کے لوگوں کو تنخواہیں اور مراعات بھی سرکاری خزانے سے دی جاتی ہیں جس کے سربراہ خود میاں شہباز شریف صاحب ہیں۔ اور بے پناہ غیر پیداواری اخراجات کون کررہا ہے کیوں کررہا ہے۔ ہر چیز کا وبال عوام پر کیوں۔ ان گھسے پٹے منصوبوں کا معاہدہ کس نے کیا کون اس کے معاہدوں کا وبال عوام پر ڈال رہا ہے۔ یہ سارے کام تو اسی بوسیدہ نظام والے کررہے ہیں جس کی آج کل شہباز شریف صاحب نمائندگی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ۲۳۰۰ ارب روپے کے گردشی قرضوں کی صورت میں بھاری بھرکم بوجھ اور بے پناہ نقصانات کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا، نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ زراعت، صنعت، اسپورٹس، دکانداروں سمیت تمام طبقات کے لیے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے حوالے سے بھرپور کوشش جاری ہیں، بجلی کی قیمت میں کمی اور نظام کی بہتری سے ہماری معیشت ترقی کرے گی۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نئے چیئرمینز اور بورڈ ممبران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ڈسکوز میں بدانتظامی اور کرپشن سرایت کرگئی ہے، بجلی نظام کو بہت بڑے بلکہ انتہائی سخت چیلنج کا سامنا ہے، میری نظر میں اگر ہم بجلی کے اس نظام کو بہتر کرنے اور اس میں جو تبدیلیاں اور اصلاحات ہیں وہ لانے میں کامیاب ہوگئے تو معیشت بہت تیزی سے آگے بڑھے گی، اس کے لیے ہمیں کمر کسنا ہوگی اور دن رات محنت کرنا ہوگی اور ذاتی پسند نا پسند سے بالاتر ہو کر ہمیں اپنی ذمے داریاں ادا کرنا ہوںگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ڈسکوز میں بہت اچھے اچھے آفیسرز بھی ہیں لیکن جنہوں نے ان ڈسکوز کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ان کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ نئے تعینات ہونے والے چیئرمینز اور بورڈ ممبران کا سب سے بڑا چیلنج بلوں میں ہیرا پھیری کو روکنا ہے، حکومت کا یہ فیصلہ ہے کہ ہم نے اس نظام کو تبدیل کرنا ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ بلوں میں ہیرا پھیری بھی سرکاری عملہ ہی کرتا ہے اور ڈسکوز میں خرابی بھی ان ہی کی بدولت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں فوری طور پر تین چار ڈسکوز میں اسمارٹ میٹرنگ کا پائلٹ پراجیکٹ لانا چاہیے۔ وزیراعظم نے جتنی خرابیاں گنوائی ہیں وہ یا تو ان کی حکومت کے دور کی ہیں یا ان کی سب سے بڑی حلیف پیپلز پارٹی کے دور کی، تو وہ اس اعتبار سے اپنے اور اتحادیوں کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ جو کچھ ہوتا ہے حکومتیں ہی کرتی ہیں، لہٰذا اگر وہ سنجیدہ ہیں تو گھسے پٹے نظام کے استعمال شدہ مہروں سے قوم کو نجات دلائیں اور قوم کے اصل نمائندوں کے لیے راستہ چھوڑ دیں۔