لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) اہل فکر و دانش میں اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ بنگلادیش میں حسینہ واجد کی آمریت کے خاتمہ کے بعد اس کے غیر آئینی و غیر قانونی آمرانہ اقدامات بھی کالعدم ہو چکے ہیں اور جماعت اسلامی بنگلادیش اور اسلامی چھاترو شبر بحال ہو چکی ہیں تاہم اگر قانونی رکاوٹ باقی ہو تو اسے بھی نئی حکومت ختم کر کے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کو باقاعدہ بحال کر دے گی۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ نے جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم‘ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اسد منظور بٹ‘ ممتاز صحافی، سیاسی تجزیہ نگار سجاد میر اور دنیا میڈیا گروپ کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی سے جب یہ استفسار کیا کہ حسینہ واجد کے زوال کے بعد بنگلادیش میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کی بحالی کے امکانات کیا ہیں تو امیر العظیم کا واضح موقف تھا کہ بنگلا دیش میں حسینہ واجد کے زوال کے ساتھ ہی جماعت اسلامی اور چھاترو شبر بحال ہو چکی ہیں البتہ آنے والے مہینوں میں وہ اپنی طاقت میں اضافہ کریں گے‘ تحریک اسلامی بنگلادیش کے
لوگوں نے پے در پے جان و مال کی قربانیاں پیش کر کے اور اپنے موقف پر بے پناہ استقامت کا مظاہرہ کر کے پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ حق و صداقت کے علمبرداروں کو ظلم و ستم کے حربوں سے جھکایا نہیں جا سکتا، جماعت اسلامی اور چھاترو شبر اب بنگلادیش میں اپنے کام کو مزید منظم انداز میں آگے بڑھائیں گی‘ حکومت نے تحریک اسلامی سے وابستہ جن اداروں کو بند کر دیا تھا، سرکاری تحویل میں لے لیا تھا یا ان پر مختلف قسم کی پابندیاں عاید کر دی تھیں وہ ادارے بھی اب بحال ہوں گے اور اسلامی تحریک کا کام منظم انداز میں پیش رفت کرے گا اور عوام میں جماعت اسلامی کی پذیرائی میں ان شا اللہ خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ نے رائے دی کہ حسینہ واجد کی اتھارٹی ختم ہونے کے بعد جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر پر پابندی کا حکم بھی خود بخود کالعدم ہو گیا ہے‘ بنگلادیش میں انقلاب کے بعد اس پابندی کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی اور جماعت اسلامی اور چھاترو شبر از خود بحال ہو گئی ہیں‘ عوام نے اپنے جمہوری حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے حسینہ واجد کے اقدامات کو تسلیم نہیں کیا اور قیمتی جانوں کی قربانی دے کر طلبہ اور نوجوانوں نے قوم کے جمہوری حقوق کا تحفظ کیا ہے‘ 1971ء میں بنگلادیش کے قیام کے بعد سے جماعت اسلامی اور پاکستان کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہونے والے البدر اور الشمس کے نوجوانوں پر جو ظلم و ستم عوامی لیگ نے روا رکھا خصوصاً حسینہ واجد نے جس طرح پاکستان سے محبت کے جرم میں بنگلا دیش کی بزرگ ہستیوں کو پھانسی اور قید و بند کی سزائیں دیں، رب کائنات نے اپنے نظام کے تحت اس ظلم کا بدلہ لیا ہے‘ حسینہ واجد نے احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو طنزیہ ’’رضا کار‘‘ کہہ کر البدر اور الشمس سے تعلق کا طعنہ دیا تو انہوں نے اسے اپنے لیے اعزاز سمجھ کر قبول کیا اور ’’ہم سب رضا کار ہیں‘‘ کا نعرہ لگا کر حسینہ واجد کو منہ توڑ جواب دیا یوں عوام نے تسلیم کیا کہ حسینہ واجد کی حکومت جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں سے جو ظلم اور زیادتی کر رہی ہے وہ قوم کے لیے قابل قبول نہیں ۔سجاد میر نے کہا کہ بنگلادیش میں جماعت اسلامی اور چھاترو شبر کی بحالی کے امکانات روشن ہیں کیونکہ حسینہ واجد کے خلاف تحریک کے روح رواں جماعت اسلامی اور چھاترو شبر کے نوجوان اور طلبہ ہی تھے اگرچہ انہوں نے جماعت یا جمعیت کا نام استعمال نہیں کیا تاہم ان کی وابستگی واضح تھی‘ وہ نئے حکومتی ڈھانچے کا بھی حصہ ہیں چنانچہ اپنا پورا اثر و رسوخ استعمال کر کے وہ جماعت اسلامی اور چھاترو شبر کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم کرائیں گے اور حسینہ واجد کے تمام ظالمانہ اور یکطرفہ احکام نئی حکومت کو واپس لینا پڑیں گے۔سلمان غنی کا کہنا تھا کہ بنگلادیش کی تاریخ کا یہ انقلابی رخ ہے کہ حسینہ واجد اور ان کے والد مجیب الرحمان نے جسے جنگ آزادی قرار دیا تھا بنگلادیش کے عوام کی بھاری اکثریت نے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے جس سے نظریہ پاکستان زندہ ہو گیا ہے اور اس کی حقانیت ایک بار پھر ثابت ہو گئی‘ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر اسی نظریہ کے علمبردار تھے اور ان کے قائدین اور کارکنوں نے ہر طرح کی قربانیاں دے کر اور پھانسی تک کی سزائیں برداشت کر کے اسلام اور نظریہ پاکستان سے اپنی بے مثال وابستگی کا ثبوت دیا ہے‘ حسینہ واجد جس طرح بنگلا دیش کو بھارت کی غلامی میں لے جا رہی تھیں عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے اور طلبہ تحریک کی کامیابی اور حسینہ واجد کے اپنے سرپرست بھارت فرار ہونے کے بعد طلبہ نے جس طرح پاکستانی پرچم لہرایا ہے وہ ان کی جذباتی اور نظریاتی وابستگی کا اظہار ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر بحال ہی نہیں ہو چکیں بلکہ ان کا مستقبل بھی تابناک ہے، حسینہ واجداس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوئی ہیں کہ زندہ سلامت بھارت فرار ہو گئی ہیں ورنہ اس کے والد اور خاندان کے باقی لوگوں کو تو فوجی انقلاب کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اب بھی شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں سے نوجوانوں نے جو سلوک کیا ہے وہ عبرتناک ہے۔