میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت نے چند ماہ قبل امریکا سے کہا تھا کہ وہ بنگلا دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے بارے میں تحقیقات کے حوالے سے احتیاط برتے۔
جب شیخ حسینہ کے خلاف شکایات بڑھ گئی تھیں تب امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے اعلان کیا تھا کہ بنگلا دیش کے حالات کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کی جائے گی۔
طلبہ تحریک کے دوران قتلِ عام کے کئی واقعات کے احکامات جاری کرنے کے الزام میں شیخ حسینہ کے خلاف بنگلا دیش میں مقدمات کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
بنگلا دیش کی سابق وزیرِاعظم اور ان کے ساتھیوں پر قتلِ عام کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ کارروائی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے تحت کی جارہی ہے۔ اِسی ٹربیونل کے ذریعے سرسری سماعت کے بعد سزائیں سناکر جماعتِ اسلامی بنگلا دیش کے رہنماؤں کو پھانسیاں دی گئی تھیں۔
اقوامِ متحدہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ حقائق جاننے کے لیے بہت جلد ایک مشن بنگلا دیش بھیجے گا۔ شیخ حسینہ کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں بھارتی قیادت اںہیں بچانے کے لیے میدان میں آگئی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ بھارتی قیادت نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر بنگلا دیش میں حکومت تبدیل ہوئی اور اپوزیشن کی جماعتیں اقتدار میں آگئیں تو خطے کی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔
شیخ حسینہ روایتی طور پر بھارت نواز رہی ہیں۔ بھارت نے 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے میں عوامی لیگ اور اُس کی غنڈا تنظیم مکتی باہنی کا کھل کر ساتھ دیا تھا۔ اس احسان کا بدلہ عوامی لیگ کے بانی اور ملک کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمٰن نے اس طور چکایا تھا کہ بھارت نواز پالیسیاں بناکر نئی ریاست کو اُس کا بغل بچہ بنادیا تھا۔