پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب میں 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو فی یونٹ 14 روپے ریلیف ملےگا، یہ ریلیف یہیں ختم نہیں ہوگا، مزید ریلیف کے لیے پنجاب میں گھروں کو سولر پینل دیے جائیں گے تاکہ ان کا بجل کا بل مزید کم ہوجائے
لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ یہ بہت بڑا ریلیف ہے، 14 روپے فی یونٹ ریلیف دینے پر حکومت پنجاب کے 45 ارب روپے خرچ ہوں گے ،مہنگائی ہم نے نہیں کی، بانی پی ٹی آئی کے دور سے یہ کام شروع ہوا، ہم مہنگائی کے ذمہ دار نہیں ہیں ،عمران خان نے خود کہا تھا کہ ملک کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں ،ہم نے تو آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا، دوبارہ لانے والے کون ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ہم مہنگائی کے ذمہ دار نہیں ہیں، ذمہ دار وہی ہیں جو آج جیل سے بیٹھ کر بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں، مجھے معلوم ہے عوام مہنگائی کے کرب سے گزر رہے ہیں،21 اکتوبر کی تقریر میں بھی میں نے بجلی کی قیمت پر تفصیل سے گفتگو کی تھی، 2017 میں بجلی کے بل کم آتے تھے، ہم نے ریکارڈ مدت میں بجلی کے کارخانے مکمل کر کے بحران پر قابو پایا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں لوگ آسانی سے زندگی گزارتے تھے، ہمارے زمانے میں دس دس روپے کلو سبزیاں ملتی تھیں، ہم نے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا اور بجلی کے کارخانے لگائے، ہم نے ڈالر کو 4 سال تک 104 روپے کی سطح پر برقرار رکھا تھا۔ 2017 میں بجلی کا بل 1600 روپے اور آج 18 ہزار روپے آرہا ہے، غریب کہاں سے بجلی کا بل دے گا؟
انہوں نے مزید کہا کہ مجھ سے عوام کی حالت دیکھی نہیں جارہی ،مریم نواز نے آتے ہی آٹے کی قیمت میں کمی کی ہے، بہت محنت کر رہی ہیں، مریم نواز صحت اور صفائی کیلئے بھی خوب محنت کر رہی ہیں، شہباز شریف نے کچھ عرصہ پہلے ایک سے 200 یونٹ والوں کو بہت اچھا ریلیف دیا جو اربوں روپے کا ریلیف ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ چند ججوں نے بیٹے سے 10 ہزار درہم تنخواہ نہ لینے پر مجھے نکال دیا گیا، مجھے نکالنے والوں نے ملک کے ساتھ ظلم اور ایک جُرم کیا تھا۔ کوئی جواب دے گا کہ مجھے کیوں نکالا گیا؟ کیوں ہمارے خلاف سازش کی گئی؟ میں اپنا دکھ تفصیل میں بیان نہیں کرتا، کچھ ذمہ داریاں قومی کی ہے جو ان کو پوری کرنی چاہیے تھی، جب 2018 میں وزیر اعظم کو نکالا گیا۔
قائد مسلم لیگ (ؔن) نے کہا کہ میرا ذہن بار بار 2017 کی طرف جاتا ہے اور جانا بھی چاہیے کیونکہ اس وقت اللہ کے کرم سے مہنگائی کا نام و نشان نہیں تھا، ہمارے دور میں بینک کی شرح سود سوا پانچ روپے تھے کون اسے ساڑھے بائیس فیصد تک لے گیا؟ سرمایہ کاری کیسے ہوگی؟ ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط پر جکڑ دیا گیا ہے،
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے حالات جس نے خراب کیے اس کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ مجھے اقتدار کی خواہش نہیں، میرا دل دکھتا ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے،