چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے،عدالت عظمیٰ

173

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک اور چیئرمن وائلڈ لائف بورڈ کو ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سماعت کے آغاز پر سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ پر فرد جرم عائد کریں؟ سچ بتائیں چیئرمین وائلڈ لائف بورڈ کے نوٹی فکیشن کے پیچھے کون ہے؟ کس کے کہنے پر نوٹی فکیشن جاری ہوا؟ ۔اس پر سیکرٹری کابینہ نے جواب دیا کہ چیئرمن وائلڈ لائف کی تبدیلی کے احکامات وزیر اعظم نے جاری کیے ہیں، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ سیکرٹری کابینہ نے الزام
وزیر اعظم پر لگا دیا ہے، سیکرٹری کابینہ نے بھائی کو بچانے کے لیے الزام وزیر اعظم پر عاید کردیا، انہوں نے وزیر اعظم کو بس کے نیچے دھکا دے دیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مارگلہ ہلز سے متعلق حکم کے بعد عدالت عظمیٰ کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا، فریقین کی رضامندی سے حکم جاری ہوا پھر یہ پروپیگنڈا کون کر رہا ہے؟ ۔عدالت عظمیٰ نے چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات دیکھے ہیں؟ ساری شاہراہ دستور پر نجی سوسائٹی کے اشتہارات لگے ہیں، چیئرمین سی ڈی اے کب ایکشن لیں گے،؟ کیا جب عوام ہاؤسنگ سوسائٹی سے لٹ جائیں گے پھر سی ڈی اے ایکشن لے گی؟ بعد ازاں وکیل نجی ہاؤسنگ سوسائٹی شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ہماری سوسائٹی خیبرپختونخوا میں ہے،میرے مؤکل کی اپنی ملکیتی اراضی ہے اس پر منصوبہ شروع کیا، عدالت نے دریافت کیا کہ زمین کی ملکیتی دستاویزات کدھر ہیں؟ وکیل ہاؤسنگ سوسائٹی نے کہا کہ ملکیتی دستاویزات میرے مؤکل کے پاس ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل کو ہدات کی کہ شاہ صاحب، اپنے مؤکل کو بلالیں۔ وکیل شاہ خاور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے مؤکل ڈیڑھ گھنٹے میں عدالت عظمیٰ پہنچ جائیں گے، میرے مؤکل صوابی سے نکل آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے مؤکل کا نام کیا ہے، وکیل نے بتایا کہ میرے مؤکل کا نام صدیق انور ہے، چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ اپنے مؤکل کا پورا نام بتائیں، وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کا پورا نام کیپٹن صدیق انور ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا آپ کے مؤکل کو بھی توہین عدالت کو نوٹس جاری کریں؟ آپ کے مؤکل نے اپنے ایڈریس میں جی ایچ کیو کیوں لکھا ہے؟ آپ کے مؤکل نے نام کے ساتھ ریٹائرڈ بھی نہیں لکھا، کیا آپ کا مؤکل تاثر دے رہا ہے کہ ہاؤسنگ منصوبہ فوج کا ہے؟۔ اسی کے ساتھ عدلت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ساری حکومت آج عدالت میں کھڑی ہے لیکن معلوم کچھ نہیں، نیشنل پارک کو مجموعی طور پر بچانا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ خوبصورتی ساری مارگلہ ہلز کی ہے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ملک اب لینڈ مافیا کے حوالے ہے۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی لیکن اگر سیکرٹری کابینہ نے سچ نہ بولا تو نتائج بھگتیں گے، زندگی میں کبھی ایک پلاٹ نہیں لیا، جو خریدا اپنی کمائی سے خریدا۔ مزید کہا کہ ایک کیمرہ پکڑو اور ہوگیا یوٹیوب چینل شروع، ہر بندہ یہاں ایک ایجنڈے پر چل رہا ہے، چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی ہوں تو آزادی اظہار رائے آجاتی ہے، ہمارے پاس کوئی میڈیا ٹیم نہیں جو دفاع کر سکے۔ عدالت نے سماعت میں پھر وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس کو درخواست آئی کہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تصوراتی بات لگتی ہے، وزارت ہاؤسنگ سی ڈی اے کے ماتحت ہے یہ بات سمجھ بھی آتی ہے لیکن پلاننگ اور ہاؤسنگ کا وزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے؟ ہم تو کہہ رہے ہیں سی ڈی اے کو بھی وزارت داخلہ سے نکال دیں. ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسی بات ہے تو وزارت تعلیم کو وزارت ریلویز میں ڈال دیں، کیوں نہ وزارت داخلہ کو نوٹس کریں؟ سارا گند ہی ختم ہو جائے گا، پارلیمان کس لیے ہوتا ہے؟ پارلیمان میں ایسے موضوعات پر بحث کیوں نہیں ہوتی، اگر ایسا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کردیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کا نہیں آرٹیکل 99 کے تحت رولز آف بزنس بنتے ہیں جس سے معاملات چلائے جاتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات تو کر سکتے ہیں؟ کوئی طاقتور آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا سی ڈی اے کو میری وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پلاٹس وغیرہ کے بھی معاملات ہوتے ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے چیئرمین سی ڈی اے سے استفسار کیا آپ کی کیا رائے ہے، کیا سی ڈی اے کو وزارت داخلہ کے ماتحت رہنا چاہیے؟ چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کو وزارت داخلہ سے عملدرآمد کرنے کے لیے پاور مل جاتی ہے، پولیس اور انتظامیہ بھی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کیا کہ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے؟ آپ اتنے اہل نہیں ہیں کہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروا سکیں؟ اگر ایسی بات ہے تو ایف بی آر کو بھی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیں، پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو پولیس پکڑ لے گی، جرمنی، فرانس، امریکا، بھارت سمیت کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ رولز آف بزنس کے تحت فیڈرل گورنمنٹ ڈویڑنز کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کرتی رہتی ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعظم آفس سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ ہم نے مارگلہ میں کمرشل سرگرمیاں روکنے کا کہا یہاں نوٹیفکیشن نکلنے لگے، یہاں کہا جاتا ہے مارگلہ میں پودے لگا رہے ہیں، کوئی آدھے دماغ والا آدمی بھی ایسی بات نہیں بولے گا، جنگل میں پودوں کی افزائش خود ہوا کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے ضیا دور میں پولن کا باعث بننے والے درختوں کی شجرکاری کا بھی حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ چار دہائی پہلے ایک صاحب آئے اور پیپر میلبری لگاتے رہے، کسی ایکسپرٹ سے پوچھا بھی نہیں اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ اس موقع پر ڈی جی گلیات اور پائن سٹی کے مالک کیپٹن ریٹائرڈ صدیق انور عدالت میں پیش ہوگئے۔ ڈی جی گلیات نے بتایا کہ ہم نے پائن سٹی کوتعمیرات سے روکا تو یہ اسٹے لے آئے، چیف جسٹس نے صدیق انور سے استفسار کیا کہ آپ وہاں کیاں بنانا چاہتے ہیں؟ صدیق انور نے جواب دیا کہ مجھے معاف کر دیں میں کچھ نہیں بناؤں گا۔