تحریک اسلامی کی ایک پہچان یہ ہے کہ تحریک اپنے نصب العین کے حصول کے لیے دستوری اور اخلاقی ذرائع کا استعمال کرتی ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ تحریک اسلامی ایک اصولی اصلاحی جماعت ہے جو دین کے مکمل قیام کو ہی مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اور ماضی کے انتشار اور عدم استحکام کا اصل سبب وہ اخلاقی بحران ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کر گیا ہے، چنانچہ سیاست ہو یا معیشت و معاشرت، صالح اخلاق کی غیر موجودگی ہی فساد اور انتشار کا حتمی سبب ہے۔ اس لیے اخلاقی انقلاب، تعمیر سیرت و کردار اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے احیا کے بغیر ملک و ملت نہ قرضوں سے نکل سکتا ہے اور نہ سیاسی شفافیت اور معاشرتی فلاح کا قیام ہو سکتا ہے۔ اسلام اپنے قرآنی اور نبویؐ اخلاقی اصولوں ہی کے ذریعے باطل، طاغوت و گمراہی، شرک و لذت پرستی اور اقتدار پرستی پر غالب آیا۔ یہ اسلام کی اخلاقی برتری تھی جس نے اپنے سے بڑی عددی قوت رکھنے والے باغیانہ معاشروں کو زیر کیا اور وہ اسلام کی اخلاقی بر تری کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوئے۔
اسلامی اخلاق کا مقصد فرد، معاشرہ اور ریاست میں توحید ووحدانیت کا قیام ہے۔ گویا فرد کی زندگی کا ہر عمل توحید کا عکس ہو اور اس کا جسم اور دل و دماغ ہر معاملے میں وہی فیصلہ کرے جو خالق حقیقی کو خوش کرنے والا ہو۔ معیشت کے میدان میں وہی سرگرمی اختیار کی جائے جو حلال اور نافع ہو اور ہر اس سرگرمی سے بچا جائے جو استحصالی سودی نظام، خود غرضی اور نفع خوری پر مبنی ہو۔ ہر میدانِ عمل میں حاکمیت نہ عوام کی ہو، نہ پارلیمنٹ کی، نہ عدلیہ کی، نہ انتظامیہ کی بلکہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ہو۔ جس بات کو قرآن و سنت نے جائز قرار دیا ہو وہی سیاست، معیشت، معاشرت غرض یہ کہ ہر شعبے کی زبان قرار پائے۔
جب بھی اللہ کی رضا کی جگہ کسی بیرونی طاقت کی غلامی اور حمایت کو اپنا رب بنایا جائے گا، اندرونی خلفشار اور طوائف الملوکی کی کیفیت کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔ آج ملک کے کئی صوبوں میں بیرونی دشمنوں کی مدد سے جو باغیانہ ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اس کا حل صرف فوج کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اصل چیز باہمی اعتماد کی بحالی اور مقامی مسائل پر خلوصِ نیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے دیرپا حل کا اختیار کرنا ہے۔ بلاشبہہ مالی اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن اصل مسئلہ اخلاقی زوال اور اخلاص کے فقدان کا ہے۔یہ اخلاقی فساد اور افلاس صرف وہ تحریک ہی دْور کر سکتی ہے جس کی بنیاد رضائے الٰہی پر ہو۔جو اپنے کارکنوں میں ایمان، تقویٰ، احسان اور ایثار و قربانی اور بے غرضی کی خوبیوں کی بنا پر ممتاز ہو۔ جس کے مخالفین بھی اس کی قیادت اور اس کے عام کارکن کے بارے میں یہ شہادت دیں کہ وہ مالی معاملات میں ایماندار ہیں، ان کا دامن بد معاملگی سے پاک ہے، وہ اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ محبت کا رویہ رکھتے ہیں، وہ اپنے مخالف کو بھی سخت زبان سے مخاطب نہیں کرتے، نہ کسی پر طنز و استہزا کے تیر چلاتے ہیں، نہ کسی کا نام بگاڑتے ہیں، نہ کسی کو چور اور بداخلاق کہتے ہیں بلکہ انبیا کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ان کا ہر قول قولِ صادق ہے۔ ایک عام شہری تحریک کے کارکن کے بارے میں یہ شہادت دینے پر آمادہ ہو کہ وہ حق کی حمایت کرتا ہے چاہے حق بات کہنے میں اس کے سیاسی مخالف کو فائدہ پہنچتا ہو۔
تحریک کے عام کارکن کی یہ اخلاقی برتری ہی تحریک کا سرمایہ اور اس کا بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ جتنا مضبوط ہوگا، تحریک کی جڑیں عوام میں اتنی ہی گہری ہوں گی۔ اس کے مقابلے میں اگر تحریک کا عوام کی نگاہ میں تصور یہ ہو کہ یہ بھی ایک مسلکی جماعت ہے جو اسلام کے نام پر حصولِ اقتدار کی جدوجہد کر رہی ہے، تو چاہے تحریک کا ووٹ بینک وسیع ہو جائے، اس کی اکثریت اس کی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ گویا تحریک کا بیانیہ اس کا وہ مخلصانہ اصولی اور اخلاقی عمل ہے جو خدمت خلق، اعلائے کلمۃ اللہ اور اخلاقی اصولوں کی سختی سے پیروی کرنے کی شکل میں عوام کے دل و دماغ میں پیوستہ ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی ایک سیاسی یا محض ایک تبلیغی جماعت نہیں ہے بلکہ اخلاقی، اصلاحی اور اصولی تحریک ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اقامت دین محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام اْمور میں اللہ کی اطاعت کو عملا ًنافذ کر دینے کا نام ہے۔
اب چند لمحات کے لیے اس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے کہ اس وقت تک ملک کا منظرنامہ کیا ہے اور اس منظر نامے میں تحریک کے کرنے کے کام کیا ہیں؟
یہ بات نقشِ دیوار کی طرح نمایاں ہے کہ ملک ایک بڑی مجموعی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ یہ محض حکمرانوں کی تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ نظم و نسق اور اداروں میں ایک بنیادی تبدیلی (change strategic) کی ضرورت ہے۔ اصلاح، جزوی تبدیلی سے نہیں ہو سکتی۔ قومی اجماع اور قومی یک جہتی کے بغیر نئے چہروں کو لانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ملک و ملت کو اس کے مقصد ِوجود کے پیش نظر ایک جامع اصلاحی عمل سے گزرنا ہو گا تاکہ ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے وسیع تر قومی یک جہتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکے۔