اپنے معاشرے میں ہمارا اصل ہدف کیا ہے؟ مولانا مودودیؒ کے ارشاد کے مطابق:
انقلابِ قیادت کی جدوجہد، یعنی ’سیاست‘ کوئی عارضہ نہ تھا، جو جماعت ِ اسلامی کو قیامِ پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہو گیا… میں بلاخوفِ تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دراصل یہی وہ امتیازی وصف ہے جو زمانۂ قریب کی تاریخ میں، جماعت ِ اسلامی کی تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممیز کرتا ہے۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص 85) دعوت ہو یا تنظیم، تربیت ہو یا اصلاح معاشرہ ’’یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے، اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں‘‘۔ (ایضاً، 70)
آپ خود سوچیے کہ اگر یہ ہدف آئینی اور جمہوری ذرائع سے حاصل ہونا ہے، اور انتخابات کے ذریعے ہونا ہے، تو وسیع پیمانے پر رائے عام کو اپنے ساتھ لینے کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کا راستہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
چنانچہ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد ہی وہ عوامی تحریک برپا کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی، جو اس سے پہلے مدھم اور سست مگر مستحکم توسیع کے کام کی خاطر مؤخر کی جا رہی تھی۔ اب ہمیں اس تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ پیچھے دیکھنے یا پلٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انقلاب کے لیے ہر زمانے میں ذرائع اور مواقع اور حالات کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد کی جاتی رہی ہے۔ آج کے حالات کے لحاظ سے بھی ماضی کے ورثے سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے، اسی جدوجہد کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہمیں لٹریچر، تقریر، تعلیم، گفتگو، مکالمے، جلسے، جلوس، ریلی، نمائش، ویڈیو، بازار، گویا تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر کام کرنا ہے۔ عوام کو اسلامی نظام کی حمایت میں ایک ایسی منظم قوت بنا دینا ہے ’’جو دفاع اور ہجوم دونوں کا بل بوتا رکھتی ہو‘‘۔ اس مقصد کے لیے ہمیں زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل و معاملات میں دخل دینا ہوگا، اور مخالف تحریکوں اور طاقتوں کے ساتھ دلیل، ابلاغ اور رائے عامہ کے میدان میں زور آزمائی بھی کرنا ہوگی۔ اگر ہم نے ان مسائل میں دخل دینے اور مخالفین کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے گریز کیا تو مطلوبہ تغیر کی رفتار بہت سست رہے گی۔
یہ عوامی تحریک خود ایک دعوتی کام ہے۔ بعض لوگ دعوت کا کام صرف وہ شمار کرتے ہیں جس پر لفظ دعوت کا عنوان لگا ہو۔ وہ کام جن پر سیاست یا عوامی تحریک کا عنوان چسپاں ہو، وہ اسے سیاسی ہڑبونگ کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس عنوان کے تحت بھی دعوت کا کوئی کام ہوا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں:
آپ ہزار کتابیں لکھ کر [یا پڑھ کر] بھی اتنا کام نہیں کر سکتے جتنا اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جس وقت کوئی اہم مسئلہ لوگوں کے سامنے درپیش ہو، اس وقت میدان میں آکر اس مسئلے میں ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص 127)
ملک کے اندر تحریک کو آج جو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے وہ مولانا مودودیؒ کے درج بالا ارشاد کے دوسرے حصے سے متعلق ہے۔ یعنی یہ کہ، پاکستان بننے کے بعد ہم نے ایک مسلم معاشرے کے عوام میں تحریک برپا کرکے جس حد تک کام کرلیا ہے، اب اس کو کس طرح آگے بڑھائیں کہ اپنی اصل منزل تک پہنچ سکیں؟ دوسرے لفظوں میں، برسوں کی کاشت کاری کے ذریعے ہم نے ہزاروں انسانوں کی جو فصل تیار کی ہے، اور جس کا عشر عشیر بھی ابھی اصل مقصد کے لیے کام نہیں آ رہا، اس کو کام میں لگا کر اس مسلم معاشرے کی معتدبہ تعداد کو کس طرح انقلابِ امامت کے مقصد کے لیے متحرک کر دیا جائے؟
جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا ایک حصہ یہ بھی رہا ہے: ’’ہمارے معاشرے میں جو ایک بچا کھچا صالح عنصر موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے یا اصلاح کی پراگندہ کوشش کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے، اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میںلگا دیا جائے‘‘۔ (آیندہ لائحہ عمل) اور اب تو اس صالح عنصر میں خود ہمارے وابستگان کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ حلقۂ متفقین کا پروگرام اسی غرض کے لیے تھا، لیکن سچ بات ہے کہ وہ بھی قابل ذکر حد تک عملی جامہ نہیں پہن سکا۔
عوامی تحریک کا ایک اہم جزو عورتوں کا حلقہ ہے۔ وہ ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ عورتوں کی راہ سے بگاڑ بھی تیزی سے آ رہا ہے۔ انھی کے ذریعے اصلاح کی رفتار بھی تیز تر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہم کو ایک ہی لگے بندھے طریقے سے کام کرنے کے بجائے حالات کے لحاظ سے موزوں تدابیر وضع کرنا ہوں گی۔
یہ سارا کام جماعت کی تنظیم میں محبت و الفت، سمع و طاعت، اور مشاورت واحتساب کے نظام کا متقاضی ہے۔ تمسخر، تنابز بالالقاب، بدظنی، تجسّس، غیبت، ہمز، بلا تحقیق نقل وغیرہ سے پاک ہو کر چلنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے لیے عزّت، احترام، محبت، الفت اور ذکرِ خیر کی صفات کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت میں اطاعت، شورائیت اور احتساب کا نظام اپنا کام کررہا ہے۔ لیکن ان اخلاقی فضائل کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
تحریک ِ اسلامی کے چار نکاتی لائحۂ عمل کا یہ فطری تقاضا ہے کہ جوں جوں عوام ہمارے ساتھ آئیں گے، اور ہم انقلابِ قیادت کی منزل کے قریب پہنچیں گے اور اس کی گہما گہمی میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں عوامی پذیرائی حاصل ہوگی تو کئی بالکل نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمارے مستحکم توسیعی اور تربیتی کام کو اس گہماگہمی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، اور نہ اس گہماگہمی سے گھبرانا چاہیے۔ کیونکہ ابتدا ہی سے ہم نے ان کے درمیان توازن پیدا کرکے چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے ہم پوری دلجمعی سے دعوت الی اللہ کا کام کریں، عوام کو ساتھ لائیں، جو لوگ قریب آئیں ان کی وسیع پیمانے پر دینی اور اخلاقی تربیت کا انتظام کریں، اور انھیں منظم کریں۔ پھر اس پوری قوت کو اصلاحِ معاشرہ کے کام پر لگا دیں، اور عوامی بیداری پیدا کرکے انقلابِ قیادت کا راستہ ہموار کریں۔
ایک کام کی وجہ سے دوسرا کام ترک نہ کریں۔ کاموں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، تقسیمِ کار ہوسکتی ہے، دوسرے تنظیمی ڈھانچے بن سکتے ہیں، لیکن لائحۂ عمل کے کسی جز کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ایسا ہونا چاہیے، نہ یہ غلط مفروضہ قائم کرنا چاہیے کہ اگر عوامی کام ہو رہا ہے تو اس کے متوازی تعمیری مساعی کو ترک کیا جا چکا ہے۔
الحمدللہ! ہم اس طریقِ کار کے مطابق اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ منزل جوں جوں قریب آتی ہے، شوقِ منزل بڑھتا ہے اور رفتار میں اضافہ ہوتا ہے ؎
تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست