بہترین دوست

457

کون ہوتا ہے میرا ’’بہترین دوست‘‘ میں اس سے کیا توقع کرتی ہوں؟ ظاہر ہے خوبصورت سے زیادہ وہ خوب سیرت ہو جو خوشی اور غم میں مجھے خود بخود یاد ہی نہ آ جائے بلکہ میرے حواس پر چھا جائے کہ میں اسے شیئر کر لوں! ظاہر ہے وہ میرے غم میں مجھے سہارا دے گا، غم دکھ درد بانٹ لے گا اور خوشی میں تو بہت ہی خوش ہوگا، ہو سکتا ہے کیا؟ یقینا مجھے انعام بھی دے گا چاہے گلے لگا کر کچھ کھلا پلا کر یا چاہے چھوٹا موٹا تحفہ دے کر کہے گا ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ! میرے راز کو کبھی بھی کسی کے آگے نہ دہرائے گا بلکہ راز ہی رکھے گا مجھ سے کبھی جلے گا نہیں، بدلہ تو لے گا ہی نہیں غلطی خطا بلکہ بدتمیزی پر مجھے حکمت اور پیار سے سمجھائے گا اور پھر مجھے تھوڑا روٹھ کر بھی دکھائے گا مگر مجھے چھوڑے گا نہیں کبھی بھی نہیں۔ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا دوست آپ کے ہزار ہوں یہ بڑی بات نہیں بلکہ جو دوست ہزار سال تک آپ کا دوست رہے وہی اصل دوست ہے! آج کل تو ہم اپنے موبائل اور اس کے ٹیکنالوجیکل جادو میں اتنا پھنس گئے ہیں کہ لائک اور ڈس لائک کے چکر میں نہ جانے کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں کہ اپنی بنیادوں کو تک خود اپنے پاؤں تلے روند دیتے ہیں اور پھر اس پر بھی ندامت نہیں، اکڑ ہوتی ہے، اللہ اکبر! کیا زمانہ آگیا ہے؟ نہیں نہیں ہم نے ہی یہ زمانہ بنایا ہے یہ تو ہمارا زمانہ ہے یہی ہم لوگ ہیں! ذرا اپنی مصروفیات تو دیکھیں کون دوست آپ کو کہاں لے جا رہا ہے؟ خونی رشتے سے قطع نظر دوستی کا رشتہ بھی کیا رشتہ ہے سبحان اللہ! یعنی دل ملنے کی بات ہے وہ بھی پر خلوص اور بے لوث ورنہ تو:

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

واقعی کیا ہمارا کوئی ایسا دوست ہے؟ غور کریں، سوچیں؟ یقینا کچھ یا شاید ایک آدھ مگر زیادہ غورکریں، تومعلوم ہوتا ہے کہ واقعی میرا ربّ میرا خالق مالک رازق اللہ ہی میرا ولی ہے۔ ایسا دوست ہے جو مجھے کسی حال میں نہیں چھوڑتا، کتنا کریم ہے کہ غلطی درغلطی پر بھی ڈھیل دیے جاتا ہے اپنے بندوں سے اعلانات کرواتا ہے، آجاؤ بھلائی کی طرف، فلاح کی طرف، نماز کی طرف پھر یہی نہیں ارد گرد ہزار رہا طرح کے جلوے دکھا دکھا کر نوٹس پہ نوٹس بھیجتا ہے کہ سنبھل جا ابھی وقت ہے، کتنی عزت رکھتا ہے میری لوگوں میں؟ حالانکہ ہم جانتے ہیں ہم کیا ہیں، وہی تو ہے جو بن مانگے بھی دیتا ہے سوچ اور خیال کو پورا کر دیتا ہے، سبحان اللہ کتنا محتاط کتنا غور سے سننے والا! کتنا قوی حکیم اور وھاب کے روز مرہ کے واقعات میں ہی میرے لیے تنبیہ اور آگاہی کے مواقع ساری زندگی دیتا رہتا ہے، شکر ہے ہمیں ہدایت بھی دیتا ہے جب ہی تو مسلمان بنایا، قرآن مبین عطا کیا، رسولؐ بھی دیا اور سنت بھی سمجھائی، اختیار دے کر مطمئن ہے کہ جو میرے بندے ہیں مطلب جو مجھے عزیز رکھتے ہیں مجھے مانتے ہیں اور میری مانتے ہیں ان کے لیے دین و دنیا میں سب کچھ رکھا ہے بس ہمیں یہی اس کا احساس کرتاہے، احساس کا ہی تو رشتہ ہے جو خون کے رشتوں پر بھاری ہے کیونکہ حق ہے اور حق کے لیے ہے یعنی دنیاوی ماحول میں نقصانات، مشکلات اور خطرات سے بچتے ہوئے عمر بھر صحیح طرز عمل کا احساس رکھتے ہوئے ہی زندگی گزارنے کا شعوری احساس رکھنا انسانیت ہے۔

میری دوست کہنے لگی ماں کی محبت دیکھی ہے؟ انمول ہے! مگر اللہ کی محبت کا رنگ اور ہی ہوتا ہے! یہ خود بخود نہیں چڑھتا بلکہ جیسے کوئی بھی رنگ چڑھانے سے کسی کپڑے کو کیسے مل مل کر دھویا جاتا ہے میل کچیل صاف کرنے کے بعد بھی کیسے تکلیف سے اسے گرم پانی میں ابالا تک جاتا ہے تاکہ پچھلا رنگ اُتر جائے یعنی پہلا رنگ اتر جائے بالکل اسی طرح ہماری زندگی میں دکھ تکلیفیں ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کی وجہ سے آتی جاتی ہیں اور ان ہی مصائب کے رنگ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ انہیں اُتارنے کے لیے اور اپنے مہربان، ولی، دوست اور نگہبان اللہ کے رنگ جسے ’’صبغۃ اللہ‘‘ کہا جاتا ہے چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ رنگ تو ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ چڑھ گیا تو اُترے گا نہیں، بار بار اُترے گا تو بار بار، ہر بار ہی اسے چڑھانا پڑے گا یعنی تازہ کرنا پڑے گا۔ سوچیں کیسے؟ ظاہر ہے قربانی، صبر، شکر، کوشش سے، محبت سے، محنت سے، نیکی سے ہی تعلق بنائے رکھنا ہوگا مرتے دم تک یعنی وہی والی بات کہ:

سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد