’’ایران 24 گھنٹے میں حملہ کرے گا، اسرائیل چوکنا رہے: برطانوی میڈیا‘‘۔
یہ چوبیس گھنٹے کا وقت شروع کب ہوگا یہ نہیں بتایا گیا۔ اس کا نہ برطانیہ کو علم ہے اور نہ ہی شاید ایران کو! اسرائیل کو بھی کوئی پریشانی نہیں۔
’’وزیراعظم کا میرٹ پر 10 لاکھ طلبہ کو اسمارٹ فون دینے کا اعلان‘‘۔
شعبدہ باز جی! تمہارے اپنے کپڑے تو آٹے کے ڈرامے میں اتر گئے۔ اب طلبہ کو دس لاکھ اسمارٹ فون دینے کے لیے کیا بڑے بھائی کا پاجامہ بیچو گے؟
’’فوج میں خود احتسابی کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر‘‘
یقین تو نہیں آرہا پر خوشی بہت ہوئی یہ سن کر! اب اگر ایک نغمہ خود احتسابی پر بھی ہوجائے توکیسا ہے میرے سجیلے جوانو!
’’امریکا کی جانب سے سندھ اور بلوچستان میں غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے خوراک کی امداد دی گئی ہے‘‘۔
عالمی منافقت! ہزاروں فلسطینی بچوں کے قاتل صہیونیوں کے ’شرپرست‘ کو ہمارے بچوں کی غذائی قلت کی فکر ہے۔
’’عوام بڑے انقلاب کی تیاری کرلیں، حافظ نعیم الرحمن‘‘۔
جی، عوام بالکل تیار بیٹھے ہیں آپ ’’روٹی کھل گئی ہے‘‘ کا اعلان کریں۔ پھر دیکھیں عوام کیسے اٹھتے ہیں۔
’’توقعات سے بڑھ کر استقبال ہوا، قوم کا پیار دیکھ کر رات کو نیند نہیں آتی، ارشد ندیم‘‘۔
ندیم تمہیں قوم کا پیار سونے نہیں دے رہا مجھے اور حافظ نعیم الرحمن کو ستر سال سے سوئی ہوئی قوم کی نیند سونے نہیں دے رہی۔
’’بھارت میں مور کے گوشت کا سالن بنانے والے یوٹیوبر کو پولیس نے دھرلیا‘‘۔
بھارتی پولیس والو! وہ یوٹیوبر ہے کوئی چیل کوا تو نہیں کہ مور کو کچا ہی کھا جاتا۔ مجبوری تھی سالن ہی بنانا تھا نا۔
’’چینی کمپنی پنجاب میں سولر پینلز کی تیاری کے لیے پلانٹ لگائے گی‘‘۔
پاکستانیوں کی اپنی انڈسٹری بھتوں، بدامنی اور بجلی گیس قیمتوں کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہے اور ہمارے ملک کے ہمالیہ سے اونچے ’’دوست‘‘ کی چار انگلیاں گھی میں اور پانچویں بجلی میں ہے۔ ہمارے سچے دوست چین کی کمپنیاں میرے وطن میں آئی پی پیز بھی چلا رہی ہیں۔
’’فیض حمید نے نواز، شہباز سے اپنے آرمی چیف بننے کا کہا، خواجہ آصف‘‘۔
یہ بیان پڑھ کر نواز شہباز کی بھی ہنسی نکل گئی ہوگی۔ خواجے کو فون کر کے پوچھا ہوگا ’’اوئے خوجے ایہہ کدوں دی گل اے، سانوں توں دسیا ئی نئیں‘‘۔
’’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے اٹارنی جنرل کو کچھ پتا ہی نہیں‘‘۔
جسٹس صاحب انتظام تو ستر سال سے انہوں نے ہی ’’سنبھالا‘‘ ہوا ہے۔ یہ بات عوام جانتے بھی ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ ملک کا انتظام سنبھالنے والوں کو کون سنبھالے گا؟
’’لاوا پکا ہوا ہے، کال دینے والا ہوں، لوگ جان دینے کو تیار ہیں، بانی پی ٹی آئی‘‘۔
خان صاحب جتنا لاوا پکانا ہے پکا لیں۔ یقین کریں کہ یہ قوم لاوا پکنے پر نہیں اٹھے گی، کوئی بریانی، قورمہ، پلاؤ شلاؤ پکائیں۔
ویسے آپ کے نمائندوں کی ’’اولیاء‘‘ کی خانقاہوں کی طرف آنیاں جانیاں دیکھ کر ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ ’’علماء‘‘ کے لیے ’’حلوہ‘‘ پکا رہے ہیں! آج پتا چلا آپ تو لاوا پکا رہے تھے۔