کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) عوام بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان ہیں‘آئی پی پیز معاہدے ختم کرنے کا قانونی جواز موجودہے‘ 40خاندانوں کو1950ارب کی ادائیگیاں غیر قانونی ہیں‘بجلی کی خریداری کے بغیر ہی حکومت ٹیکسوں اور بلوں کی مد میں وصول کردہ رقم بیرون ملک بھیجوا رہی ہے‘قانونی راستے نکالنے کے لیے لاہور بار نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے‘معاہدوں پر نظرثانی ممکن ہے۔ان خیالات کا اظہارلاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اسد منظور بٹ اور نائب صدر میاں سردار علی ‘سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز اوروفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’ کیا آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدے ختم کرنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں؟‘‘ اسد منظور بٹ اور میاں سردار علی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت قانونی راستے نکالنے کے لیے لاہور بار نے درخواست دائر کی ہے‘ اس میں لاہور ہائی کورٹ بار کا موقف ہے کہ وہ کسی ایسے معاہدے کی کارکردگی میں رکاوٹ ڈالنے یا اسے منسوخ کرنے کی خواہش نہیں رکھتے جو سرمایہ کاروں کو پیش کی جانے والی منصفانہ، معقول اور قانونی شرائط و ضوابط اور مراعات پر مبنی ہوں بلکہ وہ توانائی کی پالیسی، جواب دہندگان کے اعمال یا عدم عمل اور جواب دہندگان کے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا عدالتی جائزہ چاہتے ہیں‘ تاکہ اس سے عوام کو کچھ نہ کچھ مل سکے ‘ درخواست میں وفاق کی جانب سے کابینہ سیکرٹری، سیکرٹری وزارت پانی و بجلی، سیکرٹری وزارت توانائی، چیئرمین واپڈا، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور سی ای او /ڈائریکٹر این ٹی ڈی سی کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس درخواست کو قبول بھی کیا جاچکا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ یہ سمجھتی ہے کہ ان معاہدوں پر نظرِ ثانی ہو سکتی ہے‘ اس میں لاہور ہائی کورٹ بار کا موقف ہے کہ باوقار زندگی کی آئینی ضمانت کے باوجود ملک بھر کے شہری مہنگی بجلی، غیر اعلانیہ اور طویل لوڈ شیڈنگ، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لائنوں کی اوورلوڈنگ کی وجہ سے بار بار متاثر ہو رہے ہیں‘ بجلی کے شعبے میں نااہل افراد کی بھرتیوں اور بدنظمی کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے جس نے نہ صرف معیار زندگی کو متاثر کیا ہے بلکہ شہریوں پر ناقابل برداشت مالی بوجھ بھی ڈال دیا ہے۔ گوہر اعجاز نے کہا کہ اس کا سب سے بڑا قانونی جواز یہ ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے40 خاندانوں (آئی پی پیز) کے ساتھ ان ظالمانہ معاہدوں کے خلاف اُٹھنا چاہیے‘ یہ کیسا قانون ہے جس کے تحت بجلی کی خریداری کے بغیر ہی حکومت ٹیکسوں اور بلوں کی مد میں عوام سے وصول کردہ رقم بیرون ملک بھیجوا رہی ہے‘ ایک سال میں کئی ہزار ارب اضافی بل دینے والی قوم رو رہی ہے‘ گھریلو صارفین آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کے سبب ماہانہ ہزاروں اور لاکھوں روپے بل دے رہے ہیں‘ حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیاں 1.95 ٹریلین روپے (1950 ارب) ہیں‘ آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے حکومت بعض پاور پلانٹس سے 750 روپے فی یونٹ بجلی خرید رہی ہے‘ حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ جبکہ ونڈ اور سولر پاور پلانٹس سے بجلی50 روپے فی یونٹ کے حساب سے خرید رہی ہے‘ حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادائیگی کر رہی ہے اور دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے اور تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کر رہی ہے، یہ صرف 3 پلانٹس کے 370 ارب روپے بنتے ہیں‘ آئی پی پیز کی ادائیگی میں سب کچھ غیر قانونی ہے۔ اویس لغاری نے کہا کہ آئی پی پیز کے معاہدے ختم کرنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں لیکن ملک میں بجلی کی طلب میں 10 فیصد تک کمی ہوگئی‘ آئی پی پیز کے حوالے سے بہت کچھ کر رہے اور دیکھ رہے ہیں کہ کس آئی پی پی کا کتنا عرصہ باقی رہ گیا‘ کس آئی پی پی سے ہمیں کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہے‘ ہم ان عوامل کا جائزہ لے رہے ہیں‘ زیادہ مہنگی آئی پی پیز سے جان چھڑانے کا کیا طریقہ ہے اس کی قیمت کیا ہوگی یہ سب دیکھنا ہوگا‘ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق بہت جلد اس پر کوئی نہ کوئی فیصلہ ہوگا‘ بجلی ٹیرف بڑھنے سے جنوری کے بعد ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے سے قیمتیں کم رہیں گی۔