عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اور تمام مکاتبِ فکر کا متفقہ موقف

326

دیگر اقلیتوں کے برعکس قادیانیوں کا معاملہ الگ ہے‘ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم ظاہر نہیں کرتے‘ اس لیے وہ اس آزادی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے‘ چنانچہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے: “But this can be allowed if the non-Muslims preach as non-Muslims and not by passing off as Muslims.(PLD, 1985, FSC:117)”.
عدالت خود تسلیم کر چکی ہے: فاضل وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا اتباع عدالت عظمیٰ پر لازم ہے‘ اس لیے کوئی جواز نہیں تھا کہ نظر ِ ثانی میں کوئی بات کہتے وقت اس کو پیش ِ نظر نہ رکھا جاتا۔ لہٰذا نظرِ ثانی فیصلے کے پیراگراف 42 میں سرسری طور پر یہ بات کہی گئی ہے: ’’آئینی وقانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اْس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے‘ نہ عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے‘ تاہم اپنے گھروں‘ عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر انہیں قانون کے تحت مقرر کردہ ’’معقول قیود‘‘ کے اندر ’’گھر کی خلوت‘‘ کا حق حاصل ہے‘‘۔
مندرجہ بالا پیرا گراف کے چند الفاظ دفعہ 298C کے ان الفاظ سے کْلّی طور پر متصادم ہیں‘ جن میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے:
“Any person of the Qadiyani group or the Lahori group, who directly or indirectly or preaches or propagates his faith as Islam, or invites others to accept his faith.”
عدالت نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے: ’’قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی شخص جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے مذہب کی تبلیغ یا پرچار کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے‘‘۔ اس دفعہ میں تبلیغ کی دو صورتیں ”Preaches or propagates” (یعنی دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے) الگ الگ ذکر کر کے دونوں کو قابل ِ سزا قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون میں کوئی لفظ بے مقصد (Redundant) نہیں ہوتا‘ اس لیے یہ دونوں قسمیں الگ الگ بیان کی ہیں۔ اسی طرح ’’نجی مخصوص اداروں‘‘ کا جو لفظ نظر ِ ثانی فیصلے میں ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: ’’اْن میں انہیں ’’گھر کی خلوت‘‘ کا حق حاصل ہے‘‘ یہ بھی مذکورہ دفعہ کے خلاف ہے‘ اس لیے کہ ادارہ کوئی نجی گھر نہیں ہوتا‘ ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ مقدمے میں جسٹس سلیم اختر کے اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے: “The above restrictions clearly mean such activities which might have been performed in the public or in public view and not those to be performed in the private.
اس میں واضح کر دیا گیا ہے: ’’جو کام ’’پبلک ویو‘‘ میں کیا جائے‘ وہ پرائیویٹ نہیں ہوتا‘ ظاہر ہے: کوئی ادارہ ایسا نہیں ہوتا‘ جس کو ’’پبلک ویو‘‘ میں نہ کہا جا سکے‘ اِلّا یہ کہ کسی خفیہ سرنگ میں واقع ہو۔ اس کے علاوہ قرآنِ کریم کی تحریف یا قادیانیوں کا اپنے آپ کو بطورِ مسلمان ظاہر کرتے ہوئے اپنے مذہب کا پرچار قانوناً جرم ہے اور ہر وہ کام جو آئین وقانون کی رْو سے ممنوع ہے‘ مثلاً: منشیات بیچنا یا ذخیرہ کرنا‘ ملک کے خلاف سازش کرنا‘ کسی کے قتل‘ اِغوا برائے تاوان یا ڈکیتی کی منصوبہ بندی کرنا یا دہشت گردی کا منصوبہ بنانا‘ یہ سب کام نجی ادارے اور گھر کی خلوت میں بھی منع ہیں‘ تو قادیانیت کی تبلیغ جو عام جگہ میں یا عوام کے سامنے قانوناً ممنوع ہے‘ اس کے لیے عوام کو کسی چہار دیواری یا نجی گھر میں جمع کر نا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ الغرض نظر ِ ثانی فیصلے کے پیراگراف 42 کا مذکورہ بالا حصہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298C سے صراحتاً متصادم ہے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے بعنوان ’’مجیب الرحمن‘‘ کے بھی خلاف ہے‘ جبکہ عدالت عظمیٰ نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس کی پابندی عدالت عظمیٰ پر لازم ہے‘‘۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور قرآن وسنّت سے شواہد بھی پیش کیے ہیں‘ یہ بھی قابل ِ تحسین ہے‘ لیکن اگر یہ نہ بھی ہوتا تو یہ عقیدہ امت ِ مسلمہ میں حتمی‘ قطعی اور مسلَّمات میں سے ہے۔ لیکن صرف نظریاتی طور پر (Theoretically) ذکر کرنے سے اس کا تقاضا ہرگز پورا نہیں ہوتا‘ جب تک اس کی آئینی‘ قانونی‘ عدالتی اور انتظامی امور میں باقاعدہ تطبیق (Application) نہ کی جائے‘ سو اس نظر ثانی فیصلے میں اصل سقم یہی ہے‘ ورنہ اپنی فاسد اور باطل تاویلات کے ساتھ محض لفظی اعتبار سے تو مرزا غلام قادیانی بھی کہتا ہے: ’’میں آپؐ کو خاتم النبیین مانتا ہوں‘‘۔
عدالت نے معترضہ فیصلے کے بارے میں جن حلقوں سے آرا طلب کی تھیں‘ ان کا حق تھا کہ نظر ِثانی فیصلے میں اْن کے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیا جاتا‘ کیونکہ فیصلے کے مدلَّل ہونے کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔ لیکن اس بارے میں فیصلے میں تشنگی ہے‘ بلکہ ان نکات سے تعرض نہ کرنے کے سبب اس فیصلے میں مندرجہ ذیل امور سخت قابل ِ اعتراض ہیں:
معترضہ فیصلے میں اس بات پر سب کا اتفاق تھا: جو آیاتِ کریمہ اس فیصلے میں درج کی گئی تھیں‘ وہ زیر نظر مقدمے سے قطعی طور پر غیر متعلق تھیں‘ بلکہ جس سیاق وسباق میں پیش کی گئی تھیں‘ اْن سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی‘ نظر ِ ثانی فیصلے میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا‘ بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں یہ تبصرہ فرمایا: ’’دین کے معاملے میں جبر کی ممانعت کو تو تسلیم کیا‘ مگر نہایت احترام سے گزارش ہے کہ اسے اس حد تک محدود کر دیا کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فاضل جج کی نظر میں آیت ِ کریمہ کا حکم صرف اس حد تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ اس کے مفہوم میں کچھ اور باتیں بھی شامل ہیں‘ لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ اور باتیں کون سی ہیں‘ جو اس آیت ِ کریمہ کے تحت جبر و اکراہ میں داخل ہیں۔ اور اگر داخل ہیں تو کس دلیل سے‘ جبکہ آیت اور اس کا سیاق (Context) بتارہا ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ کسی پر اسلام قبول کرنے کے لیے زبردستی نہ کی جائے‘ مکمل آیت یہ ہے: ترجمہ: ’’دین قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں ہے‘ بے شک ہدایت گمراہی سے خوب واضح ہو چکی ہے‘ سو جو شخص طاغوت کا انکار کر ے اور اللہ پر ایمان لے آئے‘ اس نے ایسا مضبوط دستہ پکڑ لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ خوب سننے والا‘ بہت جاننے والا ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) یہ آیت اپنے مفہوم پر اتنی واضح ہے کہ اس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے‘ اس کے علاوہ ہم نے عدالت کے نوٹس کے جواب میں یہ بھی عرض کیا تھا: ’’جبر کے اس مفہوم کو سورۂ یونس میں مزید واضح فرما دیا گیا ہے‘ ارشاد ہوا: ترجمہ: ’’تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں‘‘۔ (یونس: 99)
ہم سے عدالت نے اس مقدمے پر نظر ِ ثانی کے حوالے سے اعانت طلب کی تھی‘ اس کے جواب میں ہم نے نو صفحات پر مشتمل ایک یادداشت مرتب کر کے بھیجی تھی‘ لیکن اس میں جو نکات اٹھائے گئے تھے‘ ان کے بارے میں نظر ِ ثانی فیصلے میں مندرجہ ذیل کلمات کے سوا کوئی تبصرہ موجود نہیں ہے: ’’پانچ اداروں کا مشترکہ موقف جناب مفتی سید حبیب الحق شاہ صاحب نے پڑھا‘ مگر اس میں بھی زور اس پہلو پر دیا گیا کہ عدالت نے معترضہ حکم نامے میں قرآن مجید کی آیات سے غلط استدلال کیا ہے‘‘ (پیراگراف: 18)۔
(جاری ہے)