ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ

315

علامہ اقبال نے اندلس کے میدان جنگ سے طارق بن زیاد کے جذبات کی ترجمانی اپنی نظم ’’طارق کی دعا‘‘ میں کی ہے۔ اگر آپ اس پوری نظم کو باوضو اور بامعنی پڑھ جائیں تو اقبال آپ کو زمین و مکاں کی قید سے آزاد کرا کر اندلس کے میدان جنگ میں پہنچا دے گا اور آپ اس پوری کیفیت سے سرشار ہو جائیں گے جہاں آپ کو پہنچا کر علامہ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مجاہد لیڈر اور مجاہد پیرو کار کیسے ہوتے ہیں۔ ویسے تو یہ پوری نظم اور اس کا ہر شعر بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن کالم کے تنگی داماں کے پیش نظر اگر صرف ان اشعار پر نظر دوڑائیں؛
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
کْشاد درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
اگر آپ فی زمانہ علامہ کی اس نظم کی معنویت کی قریب تر عملی تصویر دیکھنا چاہیں تو جماعت اسلامی کے راولپنڈی کے دھرنے کے شرکا کا ذوق خدائی سے لبریز جذبہ دیکھیں اور محسوس کریں کہ نصف ماہ سے زائد اس کے ہزاروں رضاکار للہ فی اللہ بجلی کے بھاری بلوں، ٹیکسوں وغیرہ کے حوالے سے احتجاج کر رہے تھے اور دھرنے دے رہے تھے، کیا خواتین کیا مرد، بچے بوڑھے اور جوان، سب ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے کاروبار، نوکریاں اور دیگر مصروفیات میں اس مشقت والی زندگی میں کس لیے اس سخت گرمی، حبس اور موسلا دھار بارش میں موسم کی سختیاں برداشت کیے پڑے رہے، محض للہ فی اللہ، اور اس کے سوا کیا؟، حدیث کی رو سے ’’ساری مخلوق اللہ کی عیال (گویا اس کا کنبہ) ہے‘‘، اس لیے اس ظلم کے خلاف لوگوں کی آواز بننے، ساتھ کھڑا ہونے اور مسائل کے حل کے لیے بے حس حکمرانوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے دہشت گردی کے ماحول میں اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے جذبہ ایمانی اور اخلاص کے ساتھ ذاتی مفاد کو خیر باد کہے بغیر یہ کام ہو نہیں سکتا۔
جماعت اسلامی کا 26 جولائی سے شروع ہونے والا تاریخی دھرنا اپنے 14 دن کے اختتام پر حکومت کے ساتھ تمام مطالبات منوانے کے نتیجے میں ایک تحریری معاہدے میں ابتدائی تفصیلات کے مطابق آئی پی پیز معاہدے، بجلی کے فی یونٹ اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں کمی، جاگیرداروں پر ٹیکس لاگو کرنے اور دیگر امور پر اتفاق کے بعد موخر کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے معاہدہ پر عمل درآمد کے لیے 45 دن کی مہلت مانگی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے دھرنے جلسے میں تبدیل کر دیے گئے۔ حالات اور صورتحال کے پیش نظر بجلی بل نہ بھرنے کی تحریک اور ہڑتال کے اختیار کرنے کی حکمت عملی اپنی جگہ پر قائم ہے۔ حکومتی اہم وزرا کی موجودگی میں دھرنے کے آخری دن شرکاء دھرنا اور عوام کو بھی جلسہ عام میں دستخط شدہ تحریری معاہدہ پر اعتماد میں لیا گیا، اور بھلا یہ اعتماد کیوں نہ کریں؟، یہ بہت زیادہ پرانی بات تو نہیں ہے جب بحیثیت امیر جماعت اسلامی کراچی، حافظ نعیم الرحمن نے ملک ریاض کی بحریہ ہائوسنگ کراچی کے متاثرین کی ہڑپ کی ہوئی اربوں روپوں کی ڈوبی ہوئی رقوم واپس کرائیں، جب کہ متاثرین کے لیے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، (ن) لیگ یہاں تک کہ پی ٹی آئی بھی اس معاملے پر کچھ نہ کر سکی تھی، اور کرتی بھی کیسے؟، اس لیے کہ پاکستان میں ملک ریاض کے نام کا مطلب سب جانتے تھے، لیکن ان ہی حالات میں حافظ نعیم الرحمن نے متاثرین کو جو ان کے پاس بھی پہنچے تھے مایوس نہیں کیا، انہیں اکٹھا کیا اور اپنی تنظیمی قوت کو اس طرح بروئے کار لائے کہ ملک ریاض کو خود چل کر جماعت اسلامی کراچی کے دفتر جاکر تحریری معاہدہ کرنا پڑا تھا۔ جب یہ معاہدہ ہوا تھا تو لوگوں نے کہا کہ یہ تو لالی پاپ ہے یہ معاہدہ یہ تحریریں تو بہت ہم نے دیکھی ہیں حکومتیں نہیں مانتیں تو اس پر عمل کیسے ہوگا؟، اور پھر جماعت اسلامی نے اللہ کی مدد سے اپنی تنظیم کی طاقت سے، اپنے کردار سے اپنے اخلاق سے اور اپنی ساکھ سے اربوں روپے الحمدللہ لوگوں کو واپس دلوائے ہیں اور سارے لوگ اس بات کے گواہ ہیں۔
موجودہ معاہدہ کے حوالے سے بحیثیت ایک سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تحت حکومت پر دباؤ اس طرح بر قرار رکھے گی کہ اس دباؤ کو نہ صرف حکومت محسوس کرے بلکہ مسئلہ حل کرنے کی طرف بھی مثبت پیش رفت اور ضروری اقدامات کرے، ظاہر ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے خاص کر جب آئی پی پیز کے ساتھ اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ہیں اور آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق ٹیکسوں کے ذریعے حکومت اپنے ذرائع آمدنی بڑھائے تاکہ وہ آئی ایم ایف کا سود اور قرضے کی اقساط کی ادائیگی کر سکے، اسی لیے بجلی کے بلوں میں مختلف ٹیکسوں کی مد میں لوگوں سے رقم بٹوری جا رہی ہے۔ اس کے متوازی حافظ نعیم الرحمن نے زمینی حقائق کا ادراک بھی کیا ہے اور متبادل کے طور پر حکمرانوں کو تجاویز بھی دی ہیں، مثلاً 1300 سی سی سے زیادہ بڑی گاڑیوں کا سرکاری استعمال اور مفت پٹرول اور بجلی کا خاتمہ، ظاہر ہے اس سب کے لیے حکومت کو اپنے اللے تللے ختم کرنے ہوں گے، جفا کشی اختیار کرنی ہوگی اور عیش پسند طبیعت کو اور اپنے اطوار کو بدلنے کی ضرورت ہوگی یہ اور اس جیسے دیگر اقدامات سے ہونے والی بچت کی رقم سے عوام کی زندگیوں میں کچھ آسانیاں اور راحت آ سکتی ہے۔
اگر اب تک حکمرانی کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو دیکھا جائے تو انہوں نے ملک کے غریب عوام سے سوائے ووٹ مانگنے کے کبھی ان کے دکھوں کا مداوا کرنے یا ان کے لیڈروں نے عوام کی جگہ پر کھڑے ہو کر سوچنے کی زحمت نہیں کی اور نہ ان کو اس بات کا احساس ہے۔ بھینسوں گھوڑوں اور کتے پالنے کے شوقین سیاسی قائدین بھلا کیسے عوام کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں، ہاں البتہ اگر یہ صرف چند گھنٹے کے لیے دن اور رات میں اپنے دفتر، رہائش اور گاڑیوں میں بغیر اے سی رہنے کا تجربہ کر کے دیکھیں تو شاید انہیں عوام کی پریشانیوں کا کچھ ادراک یا اندازہ ہوسکے۔ بجلی بلوں کے ڈسے اور ستائے ہوئے عوام گیس کی بندش کا شکار بھی ہیں، رواں ماہ کے مختلف بل ادا نہیں کر پاتے کہ اگلے بل آجاتے ہیں۔ عوام مضر صحت پانی پینے پر مجبور، غیر محفوظ سواریوں اور ناہموار راستوں پر صبح شام سفر کرنے اور مہنگائی سے پریشان ہیں، ان کے احساسات بے حس حکمرانوں تک سوائے جماعت اسلامی کے اور کون پہنچا رہا ہے ؟۔
جماعت اسلامی جس کی قومی اسمبلی اور نہ سینیٹ میں کوئی نمائندگی ہے، نہ اب الیکشن ہو رہے ہیں اس کے باوجود وہ اپنا فرض کفایہ بہت احسن طریقے سے ادا کر رہی ہے، رہ گئے اعتراض کرنے والے تو ان سے عرض ہے کہ جماعت اسلامی کے مطالبات میں یا معاہدہ میں کوئی لفظ یا جملہ تو دور کی بات ہے وہ کسی حرف کی بھی نشاندہی نہیں کر سکتے جس سے اس بات کا اشارہ بھی مل جائے کہ جو جماعت اسلامی یا ان کے رہنماؤں کے مفاد میں ہو، جب کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کی آپس کی لفظی جنگ محض اقتدار کو قائم رکھنے یا چھیننے، پارٹی اور لیڈر کے مفاد کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ مہنگائی، بد ترین معاشی صورتحال اور عوام کی بد حالی اس سب کے حکمران طبقے ذمہ دار رہے ہیں، پیپلز پارٹی، (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے تین ادوار میں ان تینوں نے جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کیے اور قرضے لیے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیں تو بات اچھی طرح سے سمجھی جا سکے گی۔ جس نے جتنے عرصے حکومت کی ہے اتنے ہی وہ ان حالات کا ذمے دار بھی ہے۔
ملک اور عوام کو مسائل کے گِرداب سے نکالنے کے لیے جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی ولولہ انگیز قیادت میں جس نے ایک عالَم کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے، اب گلی محلوں میں رابطہ عوام کی مہم شروع کر رہی ہے کہ کس طرح معاشی سیاسی اور سماجی تبدیلیاں اور دین کا راستہ اس ملک اور عوام کو غربت اور پریشانیوں سے نجات، حقیقی آزدی اور تبدیلی سے روشناس اور شاہراہ ترقی پر گامزن کر سکتا ہے۔