یوم آزادی مبارک

369

پاکستان اللہ کا دیا ہوا وہ تحفہ ہے جس کا ہم جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ 14 اگست یوم آزادی اور تجدید عہد کا دن ہوتا ہے جبکہ ہم محب وطن رہیں گے اور پاکستان کی بقاء اور اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک متحد قوم بن کر دکھائیں گے۔ آج جس پاکستان میں ہم اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ آزادی لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے بزرگ بتاتے تھے وہ جب جشن آزادی کے روز ہمیں پاکستان کے آزاد ہونے کی کہانی سناتے تھے توکچھ اس طرح گویا ہوتے تھے کہ چودہ اگست صبح پانچ بجے اعلان ہوا ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے آپ کو پاکستان مبارک ہو‘‘۔ قافلوں کا سلسلہ جاری تھا اور حالات یہ تھے کہ دس بوگیوں کی ٹرین میں دس افراد کا سانس چلتا تھا۔ سات افراد کی فیملی پاکستانی سرحد عبور کرتے کرتے دو افراد تک محدود ہوگئی تھی اور کئی تو اپنی پوری فیملی میں سے اکیلے رہ گئے تھے۔ قیام و طعام کے مسائل تھے اور دفاعی خطرات کھلے آسمان تلے مہاجر خدا کے بھروسے پر پڑے تھے۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی اور مال اسباب سب دیار غیر میں رہ گیا تھا۔ اپنوں کے بچھڑنے کا غم اور موت کے جگر فاش نظارے کلیجہ چھلنی کر گئے تھے۔ یہ سب کس لیے تھا؟ اک زمین کے ٹکڑے کے لیے؟ یا پھر اس کا مقصد لا الہ الااللہ کے نام پر ایک مملکت خداداد کا قیام تھا؟۔ آج ہمارے کچھ لیڈر حضرات جب بھارتی سرکار سے ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اگر عوام کے دل ملے ہوئے ہیں۔ ریت، روایت، رسم و رواج ایک ہیں تو سرحدی حدود کے قیام کے لیے لاکھوں قربانیاں اور سیکڑوں عصمت داریاں چہ معنی دارد؟ 77 برس قبل ہم بکھرے ہوئے اور کم زور تھے، ہم نے نئے سفر کا آغاز کیا اور کافی حد تک آگے گئے لیکن مختلف وجوہ کی وجہ سے ہم بحرانوں کا شکار رہے، ہمارے قدم مسلسل لڑکھڑاتے رہے اور اب تک لڑ کھڑا رہے ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اے پاک پروردگار، تو ہمیں متحد کر دے، ہمیں حوصلہ دے، ہمیں دنیا بھر میں سر اٹھاکے چلنے کے قابل بنا دے۔ آمین۔
انسانیت کا اتنا ہی درد بھرا ہے تو کشمیر میں 76 سے زائد سال ہوئے صف ماتم کیوں بچھا ہے؟ چلتی گولیاں، آنسو گیس کی شیلنگ، دستی بم بارود، مارکٹائی، لاپتا افراد کشمیر میں تو ہندو راج کیوں ہے؟ امن کی آشا، رام رام کا راگ الاپنے والے اور اخوت کے گیت گانے والے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں گوارا کرتے ہیں اور بھارت میں بابری مسجد کیوں شہید ہوتی ہے۔ سیالکوٹ کی سرحد گولہ بارود سے کیوں گونجتی رہتی ہے یہ سرحدیں زمینی نہیں، نظریاتی ہیں۔ ہمارا دشمن یہ بھول چکا ہے کہ اگر پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں لوگ قربانی دے سکتے ہیں، سیکڑوں بیٹیاں اپنی عزت قربان کرسکتی ہیں تو ان حدود کی بقاء کے لیے آج بھی ہم مرمٹنے کو تیار ہیں کیونکہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کا مطلب لاالہ الا اللہ ہے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے اپنے حکمران بھی پاکستان کا مطلب بھول گئے۔ حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ جلد از جلد اسلامی قانون نافذ کرتے اور حکومت کی طاقت سے لوگوں کو صحیح مسلمان بناتے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے۔ لیکن صد افسوس کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اسلامی ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ عملاً نہ ہوسکا۔
تحریک پاکستان اور آزادی میں خیبر پختون خوا کے عوام نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ قائداعظم کے مطالبے پر 1927ء میں دستوری اصلاحات کا آغاز ہوا۔ 1940ء میں سردار اورنگزیب نے قرار داد پاکستان کی تائید و توثیق کی۔ سردار اورنگزیب خان، جسٹس سجاد احمد خان اور خان بہادر اللہ خان کی کوششوں سے 1939ء میں ایبٹ آباد میں مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس خیبر پختون خوا کے مسلمانوں میں تحریک آزادی کی روح پھونکنے کا ذریعہ بنی۔ کئی اضلاع میں مسلم لیگ کے دفاتر کھولے گئے۔ مسلم لیگ نے 1947ء میں صوبے میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ کارکنان کی ایک بڑی تعداد کو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں ملوث کر دیا گیا۔ تقریباً آٹھ ہزار کارکنان کو گھرو ں میں نظر بند کر دیا گیا۔ لیکن مسلم لیگ کی تحریک بڑی تیزی سے پھلتی پھولتی چلی گئی۔ مذہبی رہنمائوں نے اس تحریک میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔ اسلامیہ کالج پشاور اور ایڈورڈز کالج کے طلبہ تصور پاکستان کو نمایاں کرنے میں سرفہرست تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں کانگریس کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور اس صوبے میں اس کا زور ٹوٹ گیا اور یہاں مسلم لیگ ایک مقبول سیاسی جماعت بن گئی۔ اس طرح 14اگست 1947ء کو شمالی مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ (موجودہ خیبر پختون خوا)
پاکستان کا قیام چودہویں صدی ہجری کا سب سے اہم واقعہ ہے جو علامہ محمد اقبال کے خوابوں کی تعبیر، قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت کا ثمر اور لاکھوں مسلمانوں کی بارگاہِ شہادت ہے۔ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر رکھی گئی تھی۔ انگریز اور ہندو دونوں کی یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست معرض وجود میں نہ آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا ساتھ دیا اور ان کی قربانی رنگ لائی اور پاکستان بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ 14 اگست ہماری تاریخ اور آزادی کا وہ دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے حقوق اور طویل جدوجہد کا ثمر ایک الگ وطن پاکستان کی شکل میں حاصل کیا۔ اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو آج ہماری کوئی پہچان نہ ہوتی ہم آج جو کچھ بھی ہیں صرف اور صرف پاکستان کی بدولت ہیں۔ اے اہل وطن اُٹھیے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنانے کے لیے دن رات محنت کریں۔ تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی روحوں کو ابدی راحت اور سکون پہنچانے کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے پاکستان کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لیے دن رات کام کریں۔ یہی یوم آزادی کا ہم سب کے لیے پیغام ہے۔ امسال کچھ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ 14اگست کو گھروں اور دیگر سرکاری ونیم سرکاری عمارتوں پر پاکستانی پرچم لہرانے کے بجائے درخت لگائے جائیں۔ پاکستان کے پرچم کو گھروں اور گاڑیوں پر لہرانے اور جھنڈیوں کی صورت میں آویزاں کرنے کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اس عمل سے تحریک پاکستان کے مناظر بزرگوں کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ نوجوان نسل کو تحریک پاکستان سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے تجدید عہد کا دن ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کے تذکرے ہوتے ہیں۔ برصغیر کے نقشے میں مسلمانوں کے لیے ایک علٰیحدہ ملک کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ پاکستان کے قیام کو روکنے کے سلسلے میں انگریزوں اور ہندؤں کے گٹھ جوڑ اور سازشوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔ اس دن درخت بھی لگانے چاہیں۔ ضرور لگائیں۔ پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے درختوں کی ضرورت واہمیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ سرسبز وشاداب پاکستان ہم سب کا ایک خواب ہے۔ یاد رکھیں کہ 14 اگست کے جذبوں کو سرد یا کم کر کے نہیں۔ آئیے ہم سب مل کے 14 اگست بھی منائیں اور شجرکاری میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ہم نے اپنی اس پہچان کو ایک ایسی پہچان بنانا ہے جس پر ہم دنیا بھر میں فخر کرسکیں۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔