نظریہ سے ہٹ جانا ہی مٹ جانا ہے

290

پاکستان 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا یا لایا گیا۔ لایا گیا کی بات ولی خان نے برٹش لائبریری کے مواد کے حوالے سے کہی۔ بہرحال ربّ کی مشیت تھی کہ برصغیر میں دنیا کی سب سے کبیر ریاست پاکستان کے روپ میں منظر عام پر آئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس بڑی ریاست کو سنبھال نہ سکے اور مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلا دیش بن گیا اور نیا پاکستان رہ گیا اور یہ بچاکھچا پاکستان بھی معاشی گرداب اور دہشت گردی کے عذاب سے دوچار ہے۔ بات غور و فکر کہ ہے کہ اسلامی ریاست کیوں سنبھل کر نہیں دے رہی ہے۔ قوم اور لیڈران ’’مادی اسباب‘‘ کی کھوج میں ہیں اور روحانی سبب کو بھولے ہوئے ہیں۔
محمد علی جناح نے یہ ریاست کلمہ طیبہ کے نام اور اسلام کے نعرہ پر زبردست عوامی حمایت سے حاصل کی۔ ان دو کی افادیت میںکوئی شک نہیں اور ایام جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ ایسے روشن چراغ ثابت ہوئے کہ پھونکوں سے یہ چراغ آج تک بجھایا نہ جاسکا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان نعروں کو بلند کرنے کے ساتھ ان تعلیمات سے آراستہ فکری قوت پیدا کرنے کا تقاضا پورا نہ قیام سے قبل کیا جاسکا نہ آج تک حکمرانوں نے زبانی جمع خرچ اور کاغذی کارروائی کرنے ماسوا کچھ کیا۔
رسول اللہؐ نے ہر قسم کی طاغوت کی پیش کشوں کو ٹھکرایا اور فرمایا کہ مجھے اپنی دعوت کا کام کرنے دو۔ انہوںنے ربّ پر یقین کاملہ اور رسالت کی حقانیت کی ایسی جوت جگائی کہ طاغوت کے پرخچے اس ایمانی فکر نے اڑا دیے۔ مگر چونکہ پاکستان کے قیام میں اسلامی فکری غذا کا فقدان رہا اور بقول محمد علی جناح بانی پاکستان کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے تھے اور کھوٹا تو اسلام کو قبول نہیں ہوتا وہ تو کھرے سکوں سے چلتا اور بڑھتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ریڈیو پاکستان سے جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکری تقاریر کا سلسلہ شروع کرایا جو ان کی وفات کے بعد کھوٹے سکوں نے بند کر اکر پاکستان میں اقامت دین کے قیام کی راہ کھوٹی کر دی اور یوں فکری زمین جو اقامت دین کے لیے درکار ہوتی ہے وہ ذہن سازی نہ ہو سکی۔
اسلام کا نعرہ جو قیام پاکستان کے مرحلے میں گونجا اور لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کا سبب بنا اس ہجرت کی پیاس کو بجھانے کے کچھ مسلکی لوگوں نے اپنی دکانیں چمکانے اور چورن بیچنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ انہوں نے میلہ خوب سجایا اور لوگوں کو بتایا کہ بس یہ چلہ کاٹ لو‘ یہ تسبیح پڑھ لو‘ ہماری ٹوپی پہن لو‘ زیادہ کرو تو مسواک کر لو‘ یہ چند رسوم ادا کر لو‘ ہماری خوب خدمت کرو‘ چندے سے ہمارے چراغ کو روشن رکھو اور یوں امت مسلمہ کا شیرازہ ایسا بکھرکر رہ گیا کہ کسی بھی ایک مسئلے پر امت مسلمہ کو متفق نہ رہنے دیا۔ بس یوں کر لو تو بیڑا پار ہے اور قرآن کو آیت کے مفہوم کے مطابق دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہر ایک اپنے ٹکڑے میں مگن ہو گیا۔ کیا پاکستان ان رسوم کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ ہرگز نہیں یہ دنیا کی واحد ریاست تھی جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی اسے ’’مدینۃ رسول‘‘ بننا تھا اور یہاں سے اقامت دین کی شعاعیں عالم تمام کو روشن کرنی تھیں مگر قوم خرافات میں کھو گئی۔ اب اسلام کو اس مملکت خداداد میں اجنبی بنانے کا عمل شروع ہے۔ فکری تیاری میں کوتاہی ان کی راہ آسان کر رہی ہے۔ فکری سوتے مسلکی سوتوں میں تبدیل ہو کر تباہی مچا رہے ہیں۔ طاغوتی طاقتیں میڈیا کی واہی تباہی سے ذہنوں کو زہر آلود کر رہی ہے۔ حالت ملک کی یہ ہے کہ اب پیٹ پوجا باقی کام دوجا کا سماں ہے۔
جماعت اسلامی اقامت ِ دین کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ شگاف کے مقابلے میں مٹھی بھرہے۔ اب بھی ان حالاتِ پراگندہ میں پاکستان کے عوام کی اسلام سے جذباتی وابستگی بڑھ کر ہے مگر فکری کمزوری اقامت ِ دین میں کھڑے ہونے سے روکے ہوئے ہے مقصد سے ہٹ جانا ہی مٹ جانا ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ ظالم‘ لٹیروں‘ دہشت گردوں کو نیست و نابود کرے‘ آمین۔