۔78 واں یوم آزادی دیکھنے والے پاکستانی شہری یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں‘ اللہ ہر پاکستانی کو عمر دراز عطاء کرے۔ آمین۔ آزادی کی سالگرہ دیکھنا، یہ مبارک باد جہاں خوشی اور مسرت کا سامان ہے وہیں ایک ذمے داری بھی ہے اگر ہم تنہائی میں بیٹھ جائیں اور سوچیں کہ ہم نے اس پاکستان کے ساتھ جو کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا اس کا کیا حشر کردیا ہے؟ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے مشرق میں بھارت اور شمال مغرب میں افغانستان ہے، چین اور ایران کی سرحد بھی ہمارے ساتھ ملتی ہے۔ آزاد کشمیر کی سرحد اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی سرحد بھی ہم سے ملتی ہے، کشمیر ابھی تصفیہ طلب خطہ ہے کہ جو اپنے مسقبل کے لیے اقوام متحدہ کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن معلوم ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ اور کشمیر عوام کے حق رائے شماری کی حمایت کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے کشمیر کے مقدمے کو انسانی حقوق کا مقدمہ بنا رکھا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جب افضل گرو کو سزا دی گئی تو عدالت نے فیصلے میں کیا لکھا؟ افضل گورو کو بھارتی پارلیمان حملے کے فرضی کیس میں پھانسی کی سزا سنائی گئی، بھارتی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا کہ حملے میں افضل گورو کے ملوث ہونے کی ثبوت نہیں ملے مگر عوام کے ضمیر کی تسکین کے لیے افضل کو پھانسی دینا ضروری ہے۔ صرف بھارتی عوام کے ضمیر کی تسکین کے لیے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان پھانسی چڑھا دیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کے قبرستان بھرے پڑے ہیں ان نوجوانوں، عصمت آماب خواتین، بچوں اور بزرگوں کی قبروں سے جنہیں بھارتی فوج نے بھارتی عوام کے ضمیر کی تسکین کے لیے گولیوں سے بھون ڈالا‘ بھارتی میڈیا اور عوام کا کردار ہمارے سامنے ہے اور اپنے ملک کے میڈیا کا کردار بھی ہمارے اپنے سامنے ہے کہ بھارت میں کس قدر بدترین حد تک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ جب کہ افضل گرو کیس میں بھارتی عدالت کے فیصلے کا پوری دنیا نے دفاع کیا ہے ہمارے اخبارات میں، ہمارے ملک کے نجی ٹی وی کی اسکرین پر، ٹاک شوز میں کیا ہورہا ہے اور کیا دکھایا جارہا ہے ہم ایسے بے پروا قوم ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہم کس قدر مشکل میں ہیں اور ہمارے کشمیری عوام کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ابھی یاسن ملک کی علالت کی خبر آئی ہے وہ ایک عرضہ سے علیل ہیں اور جیل میں ہیں۔ دنیا کے کسی حکمران کو اس کی بیوی اور اس کی بیٹی کے انسانی حقوق نظر نہیں آرہی اور نہ ہماری ٹی وی اسکرین اس جانب متوجہ دکھائی دے رہی ہیں، بس وہاں پر ہی ایک رونا اور سیاپا ہے کہ ’’میرا اقتدار کیسے بچ سکتا ہے اور مجھے اقتدار کیسے مل سکتا ہے‘‘۔ تاہم فخر کی بات ہوسکتی ہے اور کہی بھی جاسکتی ہے کہ میڈیا سے وابستہ ایک تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ڈیموکریٹس) مسلسل ہر دو ہفتے بعد عوام کے انسانی حقوق کے لیے پروگرام کر رہی ہے۔ چلو کچھ تو ہورہا ہے۔
ہمارے سامنے 24 برس کے محمد اسامہ شہید کا بھی چہرہ ہے، جو ارض مقدس کے تحفظ کی خاطر اپنی مٹی پر قربان ہوگیا۔ 24 سال کی عمر میں ایک عظیم ماں کا بیٹا سبز ہلالی پرچم میں لپٹا منوں مٹی تلے ابدی نیند سوگیا۔ شہید کی ماں کا سوال ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں دہشت گردی کب ختم ہوگی؟ یہ صرف کیپٹن اسامہ کی ماں کا سوال نہیں بلکہ دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے ہر نوجوان کی ماں کا سوال ہے۔ وہ ماں جوکہ اپنے بیٹے کو سہرے میں دیکھنا چاہتی تھی، اس ماں کا لخت جگر سبز ہلالی پرچم میں لپٹا گھر آتا ہے بھارت سے پیسہ لینے والے اس کے گھاٹ پر پانی پینے والے دہشت گرد ہمارے نوجوانوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں‘ المیہ یہ ہے کہ یہ دہشت گرد ماؤں سے ان کے خواب چھیننے پر متفق ہیں مگر ہم ہیں کہ اپنے بچوں کے تحفظ پر بھی اختلافات کا شکار ہیں‘ یوم آزادی ایک عہد کا بھی دن ہے کہ آئیے اس بات عہد کیجیے کہ ہم اپنے ملک کو آئین کا پابند رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیں اور ایسی کسی جماعت کا ساتھ نہ دیں جو صرف اپنے اقتدار کے لیے آئین میں ترمیم لائے اور قانون تبدیل کرے اور اپنا حق حکمرانی جمائے تاکہ لکی مروت میں دہشت گردوں کے حملے میں 25 سالہ کیپٹن محمد فراز الیاس شہید کی روح کو بھی سکون پہنچے اس کی تو بارات جانے کی تیاریاں ہورہی تھیں کہ میت گھر آگئی ہمارے ایک اور جوان‘ 25 برس کے کیپٹن حسین جہانگیر نے جام شہادت نوش کیا شہید کے والد کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کو اپنے وطن سے محبت اور پیار تھا میر علی میں 23 سال کا کیپٹن احمد بدر دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگیا۔ تلہ گنگ میں شہید بیٹے کی لاش پہنچی تو صبر و استقامت کے پہاڑ باپ نے الحمدللہ کہہ کر اپنے لخت جگر کا استقبال کیا یہ سب شہید اور ان کے عظیم والدین اپنے ملک کی خاطر کھڑے ہیں اور ہم بھی بطور شجری اپنا جائزہ لیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو بھارت کے پیسوں پر پلنے والے دہشت گردوں کے خلاف لکھتے، بولتے اور ان کے خلاف رائے عامہ بناتے ہیں ہم سیاسی اختلافات میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات کو بھی متنازع بنا دیتے ہیں آخر کب تک ہم دہشت گردوں کے مقابلے میں اختلافات کا شکار رہیں گے؟ کب تک اس دیس کی مائیں جواں سال اموات کا نوحہ پڑھتی رہیں گی؟