کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) شاعری اور ادب اظہار کا ذریعہ فراہم کرکے، ہمدردی کو فروغ، ثقافت کو محفوظ، ذاتی ترقی ، اور جمالیاتی فکر پیش کرکے دیگر بہت سے فوائد کے ساتھ ہماری زندگیوں کو تقویت بخشتا ہے ، ابلاغ اور تفہیم کو فروغ د یتا ہے ۔ادب کے ذریعے ہم اپنے نقطہ نظر کو وسیع کر سکتے ہیں ۔ ادب سے ثقافت کی متنوع روایات سیکھنے اور ان کی تعریف کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں جذبات پر عمل کرنے انسانی حالت کے بارے میں بصیرت حاصل کر نے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے ۔ادب سماجی تعلقات، متاثر کن تبدیلی اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ادب زبان و لسانی ارتقا کو مہمیز کر کے گفتگو کے انداز کو بہتر بناتا ہے۔شاعری اور ادب تعلیم، تنقیدی سوچ، تجزیہ، تخلیقی صلاحیتوںکے لیے ضروری ہتھیار ہیں۔ادب کو ذہنی صحت، فلاح و بہبود اور ذاتی نشوونما کے لیے علاج کے طور پر استعمال کیا گیا۔شاعری اور ادب وقت سے ماورا ہوتے ہیں، لازوال حکمت، بصیرت، انسانی تجربے سے تعلق کوپیش کرتے ہیں۔شاعری اور ادب خوبصورتی، تفریح، لذت پیش کر کے ہماری زندگیوں کو تقویت بخشتاہے ۔ان خیا لات کا اظہارجماعت اسلامی پاکستان سیکرٹری جنرل ویمن ونگ دردانہ صدیقی،جرمنی میں مقیم معروف دانشور اور ادیب سرور ظہیر غزالی ،جامعہ کراچی شعبہ نفسیات کی سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال ،جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے جسارت کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان سیکرٹری جنرل ویمن ونگ دردانہ صدیقی نے کہا کہ قوموں کی زندگی ترقی اور تہذیبوں کی اخلاقی قدروں کی تابانی کا دارومدار اس کی فکری روح کو زندہ و بیدار رکھنا ہے۔ ادب صرف زبان کی ہی خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ اعلی اخلاقی ادب معاشرے کو پاکیزہ جذبات، احساسات اور اخلاقی اقدار سے مالا مال کرتا ہے۔فنی معیارات کی ضرورت کو پورا کرتا ہے ،ادب چاہے نثر کی شکل میں ہو یا شاعری کی، خلوص کی چاشنی،، مہک اور سچائی کے اظہار کی توانائی کے ذریعے معاشرے کی سوچ اور فکر کی راہ متعین کرنے میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔ کوئی اعلیٰ ادبی تخلیق زندگی کے گہرے شعور کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ زندگی کا شعور وہ حقیقی روشنی ہے جس سے تخلیقی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔ جو کچھ لکھیں جو کچھ کہیں، آواز میں دلِ درد مندکی لے شامل ہو۔ آواز میں سچائی کے اظہار کی توانائی اس وقت ممکن ہے جب دیانت کے ساتھ اپنی بات کہی جائے۔اسلامی تہذیب کے دائرے میں مسلمانوں کے علم، ذہانت اور توانائی کا بڑا حصہ دو چیزوں پر صرف ہوا ہے۔ ایک مذہب پر اور دوسرا ادب پر۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی علم کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ اس کے آگے تمام ملت کا مجموعی مذہبی علم بھی ہیچ ہے۔ اسلامی تہذیب کے دائرے میں موجود ادب کی روایت کو دیکھاجائے تو اس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن آج مسلم معاشروں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ کروڑوں پڑھے لکھے کہلانے والے افراد بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ادب کا فائدہ کیا ہے؟ آخر ادب کیوں تخلیق کیا جائے اور اسے کیوں پڑھا جائے؟ہمارے ہاں کے بعض معتبر حلقوں میں یہ خیال بہت عام ہے کہ ادب اور فن بالکل بے کار مشغلے ہیں جو معاشرے کی ترقی میں حائل ہیں، ان میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کوئی ایسا عملی کام کرنا چاہیے جس سے ملک و ملت کا فائدہ ہو۔ ہمارے ہاں اس نقطہ نظر کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ بدقسمتی سے اردو کے کلاسیکی ادب کے عروج کا زمانہ ہی برصغیر میں مغل سلطنت کے زوال کا زمانہ ہے لہٰذا یہ طے کرلیا گیا کہ ہو نہ ہو شعر و ادب اور دیگر فنون لطیفہ سے وابستگی ہی مغلوں کے سیاسی زوال کا باعث بنی تھی، حالانکہ دنیا میں ادب اور فن کی تاریخ سے یہ با ت ثابت نہیں ہوتی۔ یونان قدیم اور روم الکبریٰ میں ادب اور فن کے شاہکار یونانِ قدیم اور روم الکبریٰ کے عہد زریں میں تخلیق ہوئے تھے۔ اسی طرح انگلستان کے عظیم شاعر اور تمثیل نگار شیکسپئر اور مارلو انگلستان کے عہد زریں یعنی سولہویں صدی میں الزبتھ اول کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔اسی طرح اسلام کے عروج کے دور میں ہمیں ابن سینا، ابن خلدون ، ابن رشد ، شیخ سعدی اور مولانا رومی وغیرہ جیسے بڑے نام ملتے ہیں۔عرب دنیا (زمانہ جاہلیت) میں بھی خطابت اور شعر و شاعری میں فصاحت و بلاغت عروج پر تھی اور آج بھی اسی کو معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم اْس دور کے ادب کے دائرے میں آیا ہے، جناب نبی کریمﷺ بھی اسی دور کے آدمی تھے، آپﷺ کی زبان مبارک پر بھی اسی دور کے الفاظ، محاورے، مثالیں اور کہاوتیں تھیں۔دردانہ صدیقی نے کہا کہ ادب انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں کیلیے تربیت گاہ ہے جو شعوری، لاشعوری طور پر ضرور انسان کو بدلنے کی صلاحت رکھتا ہے ۔الفاظ وہ زبردست آلات ہیں جنہیں وجود میں لاکر ابن آدم نے خود کو اور اپنے اردگرد کو سمجھنے اور دریافت کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔دردانہ صدیقی نے کہا کہ ہمارے مسائل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بقول جون ایلیا، ‘بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سْنی گئی’۔ یہ ادب کی قربت ہے جو ہمیں اظہار کا سلیقہ دیتی ہے، ہمارے دامن لفظوں سے بھر دیتی ہے اور ہم الفاظ کو صحیح جگہ اور صحیح طور پر برتنے کا گْر سیکھ جاتے ہیں۔نبی مہربانﷺجب جنگ حزاب سے فارغ ہوتے ہیں تو اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں کہ تلوار کی جنگ میں تم سب میرے ساتھ تھے ، اس زبان کی جنگ میں کون کون میرے ساتھ ہوگا۔ ( کیوں کہ آ پﷺ نے فرمایا تھا کہ قریشیوں کو اب تلوار اٹھانے کی ہمت نہ ہوگی لیکن وہ زبان سے لڑیں گے، شعر و شاعری کے ذریعے سے) اس پر تین افراد حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب بن مالک اور حضرت عبداللہ بن رواحہ اٹھ کھڑے ہوئے۔یہ تینوں اپنے عہد کے نامور شاعر تھے۔ نبی پاک ﷺنے شعر و شاعری کو اسلام کی دعوت و دفاع کیلیے استعمال کیا۔جن مسائل وپریشانی میںملک ومعاشرہ اس وقت گھرا ہے اس کی نجات ،اصلاحی ادب میںہی پنہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی تحریریں لکھی جائیں جو ملک و قوم کے مفادمیں انسانی اقدار کی ترجمان ہوں اور پڑھنے والے کو محبت اور سلامتی کا پیغاکم دیں۔جماعت اسلامی نے ابتدا سے ہی ادب کے میدان میں کام کیابلکہ جماعت اسلامی کا آغاز بھی ترجمان القرآن سے ہوا۔ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کے تحت حریم ادب کے نام سے اصلاحی ادبی انجمن کا قیام عمل میں آیا۔ جس کا بنیادی مقصدمختلف مثبت ادبی سرگرمیوں کے زریعہ معاشرہ کی صورت گری ، معاشرتی اقدار ،روایات اور تصورات کی درست سمت میں گامزن اور بامقصد ادب کی تخلیق اور جس کا سلوگن ہی یہ ہے ادب برائے زندگی۔زندگی برائے بندگی۔زندگی بے بندگی شرمندگی۔اس سلسلہ میں جن قدآور خواتین کے نام ذہن میں آتے ہیں آپا حمیدہ بیگم جو نہ صرف بہترین لکھنے والی تھیں بلکہ حلقہ خواتین کی پہلی سیکرٹری جنرل بھی تھیں۔ان کے علاہ آپا نیر بانو،بنت الاسلام، بنت مجتبیٰ مینا، ام ذبیر ، ثریا اسما ء ، صائمہ اسماء ، افشاں نوید ، ڈاکٹر عزیزہ انجم ، عمیرہ احمد ، نمرہ احمد ایسے بہت سے نام ہمیں ملتے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے معاشرے کی اصلاح کا کام کیا۔جرمنی میں مقیم معروف دانشور اور ادیب سرور ظہیر غزالی نے کہا کہ شعروادب کا تعلق عقل و شعور کی بالیدگی سے ہے۔ شعر وادب معاشرے کی کج روی کے خلاف ایک بندھ، ایک روک ہے اور اسی طرح شعروادب کی درست اور حقیقی شکل معاشرے کو درست راہ پر گامزن کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ معاشرے کو اچھے برے کی پہچان سکھاتا ہے۔اس لحاظ سے شعروادب کی معاشرے میں اہمیت سمجھی جاسکتی ہے۔جامعہ کراچی کی پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال نے کہا کہ جب ہم شعروادب کا ذکر کرتے ہیں تو ظاہر ہے وہ انسانوں کے جذبات و خیالات کامظہر ہوتے ہیں ان میں الفاظ کے معنی انسان کے جذبات کا اظہار کے ساتھ ساتھ زندگی کے بہت سے پہلوئوں کا ذکر بہت ہی مختصر اور مختلف پیرائے میں کیا جاتا ہے، ادب میں جن جن کرداروں کا ذکر کیا جاتا ہے دراصل وہ ہمارے آس پاس ہی ہوتے ہیں جس میں ہمیں اپنے آپ کا ہی عکس نمایاں نظر آتا ہے، شعر وادب کے حوالے سے ڈرامہ ہو یا شاعری ،مختصر کہانیاں ہوں یا ناول اس میں زندگی کی تما م چیزوں کا احاطہ کیا جاتا ہے، انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے رویوں ، رجحانات ، کردار کو خوبصورت انداز میں پیش کیا جاتاہے ، ولیم شیکسپیئر نے کہا کہ ’دنیا ایک اسٹیج ہے‘‘ اس میں انسان مختلف کر دار ادا کر تا ہے، اسی طرح نفسیات میں بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ اس میں بھی مختلف پہلو ئوں میں انداز کا اظہار مختلف معاملا ت میں کیا جاتا ہے ، ادب کی پہچان شخصیت کی عکاسی کے اظہار سے ہوجاتی ہے ، شعر وادب میں اکثر انسان اور انسانوں کے جذبات کے اظہار کا ذکر نمایاں ہے ،شعر وادب میں انسانوں کو اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے رہنمائی فراہم ہوتی ہے ، شاعری اور ادبی افسانوں و ناول سے انسانوں کی نفسیات بہت آسان الفاظ میں سمجھ آجا تی ہے اور مستقل مزاجی سے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے ،شعروادب بچوں کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان کی خواہشات وجذبات کو پروان چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ،شعرو ادب انسان کے شعور ولاشعور کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے ،شاعری وادب میں انسانوں کو سمجھنے کے لیے ان کے احساسات ،انداز ، جذبات ، اطوار ، رہن سہن ، حالات واقعات کی عکاسی کی جاتی ہے ،جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ زندگی میں شعر و ادب کی اہمیت کے حوالے سے ارسطو نے کہا تھا کہ انسان سماجی حیوان ہے اس نے انسان کو حیوان سمجھنے کے ساتھ سماج کی جو شرط عائد کی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جس طرح انسان اکیلے نہیں رہ سکتا اسی طرح وہ اپنے جذبات احساسات اور خیالات بھی دوسرے سے بانٹنا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے بھی انسان اشرف المخلوقات ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز کر سکتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی چاہتا ہے۔شعر و ادب بھی ایک ذریعہ ہے جس کے تحت انسان اپنے جذبات اور احساسات کو انتہائی لطیف پیرائے میں دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ کیوں کہ شعر میں مختصر الفاظ میں ترنم اور نغمگی کے ساتھ پیغام ہوتا ہے اس لیے یہ ذود اثر ہے اگر فرد میں شعری ذوق بھی ہو تو یہ ذود فہم بھی بن جاتا ہے اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بڑے بڑے انقلابات کے پیچھے شعر و ادب کا اثر نفوذ واضح نظر آتا ہے۔انقلاب فرانس ہو یا تحریک آزادی برصغیر اور مسلم بیداری، شعرو ادب کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے ،صرف ایک اقبال ہی مثال کے لیے کافی ہے۔دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے،پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔