کراچی کی صنعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے،کاٹی

203

کراچی (کامرس رپورٹر) کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جوہر قندھاری، ڈپٹی سرپرست اعلیٰ زبیر چھایا، سینیٹر عبدالحسیب خان، ریحان جاوید اور دیگر صنعتکاروں نے بجلی پر 33 ارب سبسڈی فوری ریلیز کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی صنعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے، کراچی کو صنعتوں کا قبرستان بنا دیا گیا ہے، چھوٹا صنعتکار اپنا کاروبار بند کر چکا ہے، دوہاتھیوں (وفاق اور کے الیکٹرک ) کی لڑائی میں کراچی کے صنعتکار پس رہے ہیں،صنعتوں کیلئے مختص 33 ارب روپے کی سبسڈی جو کہ کورونا کے دور میں صنعتی بحالی کیلئے حکومت نے تین سال کیلئے”کووڈ اضافی یونٹ سبسیڈی” کی مد میں سال 2021-22 میں 22 ارب روپے، سال 2022-23 میں 13 ارب روپے اور سال 2023-24 میں 7 ارب روپے کی سبسڈی منظور کی جو مجموعی طور پر 42 ارب روپے بنتی ہے جس میں سے کراچی کو صرف 7 سے 9 ارب روپے کی سبسڈی جاری کی گئی اور تین سال میں (2021 سے 2023) تک 33 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی سے کراچی کو محروم رکھا گیا جبکہ ملک بھر کی دیگر صنعتوں کو یہ سبسڈی جاری کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کی صنعتکاروں نے اپنی مصنوعات سستے داموں فروخت کرکے نقصان کیا۔پریس کانفرنس میں سینئر نائب صدرنگہت اعوان، نائب صدر مسلم محمدی، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین دانش خان، شہزاد مبین،سابق صدر و چیئرمین احتشام الدین ودیگر بھی وموجود تھے۔ صدر کاٹی جوہر قندھاری نے کہا کہ حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان اختلافات کے باعث کراچی کے صنعتکاروں کیلئے اس سبسڈی کی فراہمی میں بے جا تاخیر ہوئی جس کا نقصان براہ راست انڈسٹری کو اٹھانا پڑ رہا ہے، اور کراچی کی انڈسٹری نے مقابلے کی فضاء￿ کے باعث مجبور ہوکر سستے داموں اپنا مال فروخت کرکے نقصان اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اس سبسڈی کی وجہ سے ملک بھرکی صنعتوں کو 30 سے 32 روپے فی یونٹ میں بجلی ملی جبکہ کراچی میں وہی بجلی صنعتکاروں کو50 روپے سے زائد میں فراہم کی گئی۔ صدر کاٹی نے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری اور وزیر مملکت محمد علی سے مطالبہ کیا کہ کراچی کی صنعتوں سے امتیازی سلوک ختم کرتے ہوئے فوری سبسڈی جاری کی جائے تاکہ کراچی کی صنعتیں تباہی سے بچ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں پاور ہولڈنگ لمیٹڈ (پی ایچ ایل) چارجز کی مد میں 3.23 روپے جبکہ دیگر سرچارجز میں 1.52 روپے فی یونٹ عائد کئے جارہے ہیں جس میں پی ایچ ایل چارجز گردشی قرضے کی مد میں وصول کئے جارہے ہیں جس میں کراچی کے صارفین کا کوئی عمل دخل نہیں، نیپرا ٹریبیونل کی سماعت میں بھی اعلیٰ حکام اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ گردشی قرضے میں کراچی کا تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ 1.52روپے کا سرچارج صرف کراچی سے وصول کیا جارہا ہے جو پاکستان میں کسی اور تقسیم کار کمپنی کے صارفین ادا نہیں کر رہے۔ صدر کاٹی نے کہا کہ کراچی کے صارفین پی ایچ ایل اور دیگر سرچارجز ادا کرنے کے باعث سب سے مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہے جس کے باعث پاکستان کے بزنس حب کراچی کی صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں ہیں۔ جوہر قندھاری نے کہا کہ حکومت ماڑی گیس فیلڈ سے ملنے والی 100 ایم ایم سی ایف ڈی کی اضافی گیس کو فوری طور پر کراچی کے صارفین کیلئے بجلی پیدا کرنے کیلئے فراہم کرے تاکہ بجلی کی پیداواری قیمت میں فوری طور پر 13.98 روپے فی یونٹ کی کمی ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کیلئے آر ایل این جی سے ملک کی مہنگی ترین بجلی پیدا کی جارہی ہے جو 3600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں دستیاب ہے، جس سے اس وقت بجلی کی پیداواری قیمت 26.93 روپے سے 38 روپے فی یونٹ میں فراہم کی جارہی ہے۔