ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) کہا کرتی تھیں ’’لوگ اکثر ہمدردی کے لیے میرے پاس آتے ہیں، کئی تو یہ بھی کہتے ہیں… اگر تم انڈیا میں ہوتیں تو تمہاری بچی اغواء نہ ہوتی۔ مگر میں کہتی ہوں کہ ہم نے بے شمار قربانیاں دے کر اللہ کے نام پر یہ ملک حاصل کیا ہے، گرین پاسپورٹ ہمیں ہماری جان سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ میرے شوہر انگلینڈو امریکا میں رہے مگر ہم نے کبھی وہاں کی شہریت نہیں لی، میری بچیوں نے بھی وہاں کی شہریت نہیں لی۔ عافیہ اور فوزیہ نے امریکا میں تعلیم حاصل کی اور ہر موقع پر نمایاں کارکردگی دکھائی۔ عافیہ اپنی تعلیم مکمل کر کے تعلیم کے ذریعے انقلاب لانے کے جذبہ سے وطن واپس لوٹی تھی۔ پاکستان کی محبت عافیہ کے دل میں اسی طرح رچی بسی ہوئی تھی جیسے اس کے بزرگوں کے دلوں میں تھی۔ ہم پاکستان آئے تو اپنا سب کچھ لٹا کر آئے، یہاں آکر بھی پاکستان کی تعمیر وترقی اور استحکام کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ میری بیٹی عافیہ پر لگائے جانے والے تمام تر الزامات امریکی اداروں نے خود غلط تسلیم کیے ہیں۔ عافیہ کو جرم ِ بے گناہی کی سزا سنائی گئی ہے۔ امریکی عوام میں بھی اب عافیہ کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ فیصلے کے حوالے سے شعور اجاگر ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت پاکستان حرکت میں آئے تو امریکا عافیہ کو رہا کر دے گا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دن رات یہی دعا کرتی ہوں کہ وہ ہمارے حکمرانوںکو جذبہ وہمت اور قوتِ گویائی عطا فرمادے جس کے نتیجے میں حکمران عافیہ کو واپس لا کر اپنا قومی و دینی فریضہ ادا کرنے میں کامیاب ہو سکیں‘‘۔ اسی خانوادے کی ایک بیٹی، جسے قوم نے اپنی بیٹی بنا لیا ہے، یہ اکیسواں یوم آزادی ہو گا جوجرم بے گناہی کی پاداش میں امریکی جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں گزارے گی، جسے عقوبت خانہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
آزادی پر حق کیا صرف طبقہ اشرافیہ کا ہی ہے؟ کیا عام پاکستانی کا آزادی پر کوئی حق نہیں ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کا جشن عام پاکستانی شہری ہی مناتے ہیں، طبقہ اشرافیہ تو اس وقت بھی پروٹوکول کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے اور محب وطن شہری اپنے دل جلا رہے ہوتے ہیں۔
قیام پاکستان کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام 31 دسمبر، 1600ء میں آیا تھا۔ اس جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے قیام کا مقصد بحرہند ریجن میں تجارت کرنا تھا۔ اس وقت ہندوستان میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی حکومت تھی۔ اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ برطانوی تجارتی کمپنی اگلے 157 سال میں پورے ہندوستان پر قبضہ کرلے گی۔ 1857ء میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی دہلی کے لال قلعہ تک محدود حکومت کا خاتمہ کر کے انگریزوں نے ہندوستان پر حکومت کا آغاز کیا۔ واضح رہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا 1874ء میں خاتمہ ہو گیا تھا۔ چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لیے ہندوئوں کی بہ نسبت غلامی کا احساس مسلمانوں میں زیادہ پایا جاتا تھا۔ ہندوئوں کے لیے تو انگریزوں کی حکومت ایک قوم سے دوسری قوم کی غلامی میں جانے کی مانند تھی۔ ڈیڑھ صدی میں قبضہ کرنے والے انگریز ہندوستان پر فقط 90 سال ہی حکومت کرسکے۔ 1947ء میں ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ ہی انگریزوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور تقریباً 40 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد 1947ء میں قائد ِاعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ قیام پاکستان کے تقریباً 50 سال بعد تک آزادی کا احساس باقی رہا۔ یہ ابتدائی 50 سال وہ تھے جن میں پاکستانی شہری، ہندوستانی شہریوں کے مقابلے میں زیادہ خوش، و خوشحال، پرجوش اور پراعتماد تھے۔ ہر پاکستانی کے دل میں وطن کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ موجود ہوتا تھا۔ 1994ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سال تھا جب وہ چار مختلف کھیلوں ہاکی، کرکٹ، اسکواش اور اسنوکر کا ورلڈ چمپئن ہوا کرتا تھا۔ پاکستان کے قیام کی پانچ دہائیاں مکمل ہونے کے بعد نئی عیسوی صدی کا آغاز ہوا۔ جو نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے سخت ابتلا و آزمائش کی صدی ثابت ہورہی ہے۔ نئی عیسوی صدی کے آغاز کے اگلے سال ہی نائن الیون کا ’’عجب واقعہ‘‘ پیش آیا، جس نے دنیا کی سیاست اور معیشت کا نقشہ ہی بدل دیا۔ یہ وہ دور تھا جب کمزور ممالک امریکی اتحادی بننے میں عافیت سمجھنے لگے تھے۔ پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بھی ایک کمزور ملک ثابت ہوا اور امریکا کا اتحادی بن گیا۔ مگر ایک عام پاکستانی امریکا کا اتحادی ہونے کے بجائے غلامی کے احساس میں مبتلا ہو گیا تھا۔
حالات جیسے بھی تھے مگر محب وطن شہری ہر سال یوم آزادی جوش و خروش کے ساتھ مناتے تھے۔ ان حالات میں 2003ء کا سال آگیا۔ 31 مارچ اور یکم اپریل، 2003ء کے اخبارات میں ایک خبر چھپی کہ امریکی ایف بی آئی کو مطلوب ایک خاتون عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کردیا گیا ہے۔ مگر اس وقت کے وزیرداخلہ فیصل صالح حیات نے اس خبر کی تردید کی جو بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی۔ پانچ سال تک اس پاکستانی خاتون کو بگرام، افغانستان کے خفیہ امریکی عقوبت خانے میں جبری طور پر لاپتا رکھنے کے بعد 2008ء افغانستان سے غیرقانونی طور پر امریکا منتقل کردیا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ 2003ء سے انتہائی شرمناک سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ اس پر بہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے، اسے بائبل پڑھنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اسے قانونی دفاع کا حق نہیں دیا جارہا ہے اور اس سے ایف ایم سی کارسویل جیل میں زیادتی کی جا رہی ہے۔ اس کے وکیل کو ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے کیونکہ وہ چند قانونی کاغذات پر ڈاکٹر عافیہ کے دستخط کرانا چاہتا ہے تاکہ اس کی رہائی کے لیے کوششیں کی جا سکیں۔
برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں کی 90 سالہ غلامی کے بعد آزادی حاصل کی تھی۔ آزادی کا احساس چند سال ہی رہا۔ پھر اس کی جگہ امریکی غلامی کے احساس نے لے لی۔ عافیہ کی غیرقانونی حراست کی وجہ سے آزادی کا رہا سہا احساس بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کے نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں۔ عام لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ صرف وہ لوگ ملک میں رہنے پر مجبور ہیں جن کے پاس باہر جانے کا موقع دستیاب نہیں ہے۔ ملک معاشی طور پر آئی ایم ایف کا غلام بن چکا ہے۔ ارباب اقتدار و اختیار کو عام پاکستانی شہری کے جذبات کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کی یقین دہانی بھی کرانا ضروری ہو گیا ہے کہ ریاست کی نظر میں عام پاکستانی کی قدرومنزلت باقی ہے۔کیونکہ گزشتہ 21 سال سے ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ارباب اقتدار واختیار نے جو رویہ اپنا رکھا ہے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک اشرافیہ کے لیے بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ ’’ایف ایم سی کارسویل جیل کے اہلکار عافیہ سے زیادتی کررہے ہیں اور حکومت پاکستان کو اس کا علم ہے‘‘۔ اس کے بعد کہنے کو باقی کیا رہ جاتا ہے؟
ڈاکٹر عافیہ کو چاروں صوبے کے لوگ بے گناہ اور مظلوم مانتے ہیں۔ عافیہ رہائی تحریک میں سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے نوجوانوں کی شمولیت امید کی کرن ہے، جو معصوم اور مظلوم عافیہ کی رہائی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی جدوجہد کرنے والے یہ نوجوان مایوس نہیں ہیں اور ریاست کی بقاء کے لیے یہ ضروری بھی ہے کہ عوام کو مایوس نہ ہونے دیا جائے۔ ملک بھر کے لوگ عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے منتظر ہیں۔ ریاست سے عوام کا سوال ہے کہ ’’عافیہ کو آزادی کب ملے گی؟‘‘۔