جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن کی کامیابی کے لیے پورے قوم دعا گو ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دور حکومت میں حکومتی وسائل سے بجلی بنانے کے بجائے پیپلزپارٹی نے پرائیویٹ پارٹیوں کو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی اور ان بجلی خریدنے کے ایسے معاہدے کیے جو آج عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکے ہیں مگر بے شعور عوام آج بھی جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کاروبار تھا کہ سب کی آنکھوں کھل گئیں۔
2002ء جنرل مشرف اور 2015ء میں میاں نواز شریف نے بھی آئی پی پیز سے معاہدے کیے اس غلطی کے سب ذمے دار ہیں۔ موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر توانائی چین کا دورہ کرکے آئے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین سے قرض کی واپس میں توسیع کے لیے مثبت گفتگو ہوئی ہے۔ چین نے یقین دلایا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کی منظوری دلانے میں پاکستان کی مدد کرے گا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی کڑوی گولی کے ساتھ ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور پرانے ٹیکسوں میں اضافے کے علاوہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی عوام کے لیے وبال جان بن چکی ہیں۔ غریب لوگ خودکشی پر مجبور ہیں‘ کچھ بدنصیب لوگ سوشل میڈیا جماعت اسلامی کے خلاف چلا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چند ڈالرز کے لیے اپنی ماں کا بھی سودا کر سکتے ہیں۔ بے غیرت تو ہر قوم میں ہوتے ہیں کچھ بے ضمیر لوگ آرمی چیف اور افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں مگر نہ تو میری افواج بے ضمیر ہے نہ ہی جماعت اسلامی۔ کون کہتا ہے کہ جماعت اسلامی آئی پی پیز کا یا حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ بات مردہ ضمیر لوگ ہی کرسکتے ہیں عوام جب طاقت ور ہوں تو اس کے سامنے بڑے بڑے بے بس ہو جاتے ہیں۔ آئی پی پیز کے سب معاہدے ایک صدارتی آرڈر سے یا چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن پر ختم ہو سکتے ہیں۔ اسمبلی میں بل بھی منظورکروا کر ان موت کے پروانوں سے جان چھڑائی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے وزیراعظم صاحب کو حوصلے کی ضرورت ہے اگر چند اہم مسئلے موجودہ حکومت حل کر دیں تو ملک انارکی سے بچ سکتا ہے اور بقول سلیم صافی اگر آئی پی پیز کے مالکان جو اب تک عوام سے اربوں روپے وصول کرچکی ہیں خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیں اور معافی مانگ لیں۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز نے جو انکشاف کیا ہے وہ کافی نہیں کہ بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود ایک پاور پلانٹ کو جنوری سے مارچ 2024ء تک ایک ارب 28 کروڑ ادا کیے گئے۔ اسی طرح ایک اور طاقت ور ہستی کی کمپنی کو 33 ارب ادا کیے گئے ایک اور کمپنی کو 30 ارب ادا کیے گئے۔ ان کمپنیوں نے اس پورے عرصے میں بجلی پیدا نہیں کی بس اربوں روپے وصول کیے۔ پنجاب میں قائم ایک اور کمپنی نے جنوری سے مارچ تک 10 ارب روپے کیے اور سندھ میں قائم ایک کمپنی نے بغیر کسی بجلی کی پیداوار کے تقریباً 930 ملین روپے وصول کیے۔ ایک اور کمپنی کو 670 ملین روپے اداکیے گئے جب کہ ایک اور کمپنی کو ان تین ماہ کے دوران بجلی کی پیداوار کے بغیر 590 ملین روپے دیے گئے۔ اس وقت 4 پاور پلانٹ ایسے ہیں جن کو ماہانہ 10 ارب روپے مل رہے ہیں جب کہ بجلی کی فراہمی صفرہے۔ اب دوسری طرف آئی پی پیز کے مالکان کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے ساورن گارنٹی کے تحت معاہدے کیے ہیں جس وقت یہ معاہدے کیے گئے تھے اس وقت پاکستان کو بجلی کا شدید بحران تھا اور کوئی اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیارنہ تھا۔ اب جب اس کاروبار میں منافع ہو رہا ہے تو اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے طے شدہ معاہدوں کے تحت ہو رہا ہے جس کے سب فریق پابند ہیں۔
ابن آدم کہتا ہے کہ آئی پی پیز منافع لے گا مگر حرام نہ کھائیں جب آئی پی پیز بجلی پیدا ہی نہیں کرتی تو اربوں روپے اُن کو کیوں دیے جا رہے ہیں؟ یہ معاہدہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا وائٹ کالر کرائم ہے جس کی پوری دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ ایک چیز میرے پاس ہے ہی نہیں تو عوام کا خون چوس کر ان کی نسلوں کو پالنے کا ٹھیکہ عوام نے تو نہیں لیا۔ سلیم صافی کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال سے بالکل واضح ہے کہ حکومت ہر ماہ بجلی کا بل غریب سے لے کر امیروں کو ادا کر رہی ہے اس غلطی کے اصل ذمے دار وہ حکمران ہیں جنہوں نے یہ معاہدے کیے لیکن ان معاہدوں کو حرف آخر سمجھنا بھی دانش مندی نہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو صرف بیس فی صد آئی پی پیز غیر ملکی کمپنیوں کے ہیں باقی سب کے سب پاکستانی سرمایہ دار ہیں۔ اگرحکومت اور ہماری اسٹیبلشمنٹ ان مقامی سرمایہ داروں سے بات کر کے سمجھا دیا جائے کہ اگر پاکستان رہے گا تو ان لوگوں کی دولت بھی رہے گی۔ اب حافظ صاحب کی طرف سے وہ نوبت آگئی کہ کسی بھی وقت بجلی کا بل حکومت کے گلے کا طوق بن جائے۔ اس لیے آئی پی پیز کے مالکان کھربوں میں سے کچھ ارب واپس قوم کو لوٹا دیں جو انہوں نے حکومت سے کمائے ہیں نہیں تو جو لاوا پک رہا ہے کسی بھی وقت عوام اٹھ کر حکمرانوں اور ان آئی پی پیز کے مالکان کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہوں گے۔ بنگلا دیش میں جو ہوا یہ وہ سبق ہے جس سے حکومت کو سیکھنا چاہیے۔ اس وقت پاکستان اور بنگلا دیش کے حالات میں مماثلت ہے حکومت ایک پارٹی کے خوف میں مبتلا ہے اور آئین‘ عدلیہ‘ ملکی نظام‘ صحافت‘ پارلیمان ہر ادارے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ حافظ صاحب نے کہا کہ ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن اگر عوام خود نکل کر حکمرانوں کا گھیرائو کرنے لگیں تو ان کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ حکمرانوں کو شاید عوام کی تکلیفوں کا بالکل بھی ادراک نہیں اس سے قبل ہم عوام سے بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی اپیل کریں حکمران ہوش کے ناخن لیں۔ حافظ صاحب نے کہا اگر فارم 45 کے مطابق فیصلے کیے جائیں تو وزیراعظم شہباز شریف اور ان کا پورا خاندان سمیت ان کی اتحادی پارٹی گھر چلی جائے گی۔ حافظ صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ ہمیں مجبور نہ کرو۔ ڈی چوک بھی دور نہیں۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ حکومت بچانے کے بجائے ریاست کو بچایا جائے۔ 9 مئی کا واقعہ تو ملک کی ایک پارٹی کا عمل تھا اگر ملک بھر سے عوام اپنے حق کے لیے نکل پڑے تو پھر اس سے بھی بڑا واقعہ رونما ہو سکتا ہے لہٰذا ابن آدم عاجزانہ طور پر مطالبہ کرتا ہے کہ کچھ کریں۔ قوم کو چوروں سے نجات دلائیں۔ جماعت اسلامی جیسی ایمان دار جماعت کو ایک مرتبہ تو حکومت کرنے کا موقع فراہم کریں مجھے امیدہے قوم ایک سال میں ہی سکون کا سانس لے گی اور پانچ سال میں قوم خوش حال‘ پاکستان خوش حال ہو جائے گا۔