چندا دور نہ جاؤ ہم سے…

387

خبر ہے اور بڑی تشویشناک خبر ہے کہ چاند زمین سے تقریباً 3.8 سینٹی میٹر فی سال کی رفتار سے دور ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اور چاند کے درمیان اس بڑھتے فاصلے سے دونوں سیاروں کے دنوں کے دورانیے (گھنٹوں) پر واضح اثر پڑے گا۔ تفصیلات کے مطابق زمین پر ایک دن کا دورانیہ 24 گھنٹے ہے، چاند سست روی سے زمین سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں زمین پر ایک دن کا دورانیہ 25 گھنٹوں کا ہوجائے گا۔ محققین کا کہنا ہے کہ چاند ہر سال 3.8 سینٹی میٹر کی رفتار سے زمین سے دور جا رہا ہے جس کی وجہ سے زمین کے دن کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔ تحقیق کے نتائج میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والے 20 کروڑ برسوں میں زمین کے دن کا دورانیہ 25 گھنٹوں کا ہو جائے گا۔ تحقیق میں ماضی سے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک ارب 40 کروڑ سال قبل زمین کے ایک دن کا دورانیہ 18 گھنٹوں کا ہوتا تھا۔ محققین نے کہا ہے کہ چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ بڑھ جانے کے نتیجے میں چاند کی رفتار بھی زمین کے گھومنے میں زیادہ سست روی کا شکار ہو جائے گی جس کے سبب زمین کے دن کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔

سائنسدانوں کی اس تحقیقی حرکت سے متعدد اہل پاکستان کے لیے متعدد مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک تو یہ کہ آخر ان سائنسدانوں کو کیا تکلیف ہے کہ کروڑوں سال سے چاند جہاں ہے اسے وہاں سے دور دھکیلنا چاہتے ہیں۔ چاند کے دور ہونے سے ہماری رویت ہلال کمیٹی اور مولوی پوپلزئی کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی اور ہمارے لیے تراویح، عید، بقرعید کے گمبھیر مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔ ہمیں تو بڑی بڑی دور بینوں کے ساتھ اونچی اونچی عمارتوں کی چھتوں پر موجودہ فاصلے پرچاند ڈھونڈنے میں بھی آدھی آدھی رات لگ جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو صبح پتا چلتا ہے کہ رات کو کسی لمحے تربت، مالاکنڈ، حاصل پور یا ہالا کے کچے کے علاقے کے کسی چرواہے کو نیا نویلا چاند اچانک ایک جھلک دکھا کر آرام کرنے چلا گیا تھا۔ اب اگر چاند اپنی موجودہ جگہ سے آگے جا بسا تو ہوسکتا ہے کہ روزوں کے لیے اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے دو تین روزے ہی نکل جائیں اور عید کی تلاش میں تین روز مزید رکھنے پڑ جائیں۔

بتایا گیا ہے کہ چاند کی اس حرکت سے زمین کا دن چوبیس سے بڑھ کر پچیس گھنٹے کا ہو جائے گا۔ ہفتہ اتوار اور چھٹی کے دن کی حد تک تو یہ بات خوش آئند ہے لیکن کام کے دنوں میں دن کا پچیس گھنٹے کا ہوجانا قابل قبول نہیں! ذرا یہ بھی سوچیے کہ چاند کی دیکھا دیکھی اگر سورج نے بھی کچھ آگے کسی کھلی جگہ پارکنگ کی تلاش شروع کردی تو بجلی کے ستائے اہل پاکستان کا کیا بنے گا۔ یا تو ہم ٹھنڈ سے مرجائیں گے یا پھر گھپ اندھیرے میں بیٹھے رہیں گے۔ دھوپ نہ ہونے سے سارے سولر سسٹم ناکارہ ہوجائیں گے۔ اس سے ہمارے موبائل فون کی چارجنگ اور نتیجتاً سوشل میڈیا میں خلل پیدا ہو جائے گا۔ دنیا سے ہمارا رابطہ ختم اور واٹس ایپ فیس بک وغیرہ وغیرہ سے تعلق ختم ہونے سے چاروں طرف ویرانی چھا جائے گی۔

خود سوچیں ایسے میں بوڑھے میاں بیوی نیٹ کے بغیر کیسے امن سے رہ سکیں گے کہ نہ لڑ نے کی سکت اور نہ پیار، محبت، رومانس کی ہمت! اس لیے سائنسدانوں سے درخواست ہے کہ چاند کو نہ چھیڑیں اس کو اپنی جگہ پر رہنے دیں۔ اگر کچھ چھیڑ چھاڑ ضروری ہی ہے تو فارم 47 اور آئی پی پیز کے ستائے لوگوں پر رحم کرتے ہوئے مریخ یا پلوٹو کے ساتھ یا ان کے کسی چاند کیساتھ زور آزمائی کرکے اپنا شوق تحقیق پورا کرلیں۔