لاپتاافراد کے لواحقین کو50لاکھ دینے کے اعلان پر عملدرآمد کاآغازنہ ہوسکا

151

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے لاپتا افراد کے لواحقین کو 50، 50 لاکھ روپے دینے کے اعلان کو دو ہفتے بعد بھی پاکستان بھر کے لاپتا افراد کی فہرست مرتب نہیں کی جاسکی ہے، لاپتا افراد کمیشن(کمیشن آف انکوائری آف انفورسڈ ڈس اپیئرنس)کو وفاقی حکومت کی جانب سے لاپتا افراد کے حوالے سے کسی بھی قسم کا ڈیٹا یا معلومات فراہم کرنے کے لیے تحریری طور پر تاحال کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ لاپتا افراد کمیشن کے سیکرٹری فرید احمد خان نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی 2اگست 2024کو الیکٹرونک میڈیا پر نشر ہونے والی گفتگو سنی ہے اور اگلے دن پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں پڑھا ہے کہ 5سال سے لاپتا افراد کے لواحقین کو فی کس50، 50 لاکھ روپے دیے جائیں گے اس حوالے سے جتنا آپ باخبر ہیں میں بھی اتنا ہی باخبر ہوں مجھے یا ہمارے ادارے کمیشن آف انکوائری آف انفورسڈ ڈس اپیئرنس سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی ہم سے لاپتا افراد کے ڈیٹا یا معلومات یا کوئی بھی ایسی چیز جو لاپتا افراد سے متعلق ہو کمیشن کو فراہم کرنے کا نہیں کہا گیا ہے جب ہم سے وفاقی حکومت یا حکومتی ادارے کے نمائندے کاکوئی فرد رابطہ کرے گا تو پھر ہم ان کو لاپتا افراد کے حوالے سے فہرست یا دیگر معلومات فراہم کر نے کے پابند ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی وزیر قانون کے 2 اگست کے اعلان کے بعد سے 12 اگست2024 تک فی الحال کسی قسم کی کوئی بھی معلومات حکومت نے ہم سے نہیں مانگی ہے اور نہ ہی کسی نے ہم سے رابطہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے کمیشن آف انکوائری آف انفورسڈ ڈس اپیئرنس جسٹس( ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں 2011 ء میں قائم کیا گیا تھا، لاپتا افراد کمیشن کا مرکزی دفتر کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈڈس اپیر نسز ڈائر کٹو ریٹ جنرل سول ڈیفنس بلڈنگ ماؤ ایریا، جی نائن ون اسلام آباد میں موجود ہے،لاپتا افراد کا یہ کمیشن13برس سے وفاقی حکومت کے زیر نگرانی کام کر رہا ہے اور ہمارے پاس پاکستان بھر سے لاپتا افراد کی فہرست اور ان کا ڈیٹاموجود ہیں لاپتا افراد کس تاریخ سے پاکستان کے کس شہر سے کب سے کہاں سے لاپتا ہوئے ہیں ،لاپتا افراد کے لواحقین کے رابطہ نمبر ان کا رہائشی پتا اور دیگر معلومات ہمارے پاس موجود ہیں اورہر مہینے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں باقاعد گی سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سماعت کا انعقاد کیا جاتا ہے اور بڑی تعداد میں اس کمیشن کے ذریعے لاپتا افراد بازیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر حکومت کی جانب سے ہم سے رابطہ کیا گیا تو ہم انہیں معلومات فراہم کر سکتے ہیں اس سے پہلے یا ابھی تک ہم سے کسی حکومتی سطح پر کسی نے رابطہ نہیں کیا ہے تو ہم اس وقت تک کسی کو معلومات فراہم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔اس حوالے سے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کی جانب سے لاپتا افراد کے لواحقین کو 50، 50 لاکھ روپے دینے کا اعلان خوش آئندہ ہے ،لیکن اس پر عملدرآمد ہونے میں تاخیر ہورہی ہے، یہ 50لاکھ روپے لاپتا کیے جانے والے افرادکا متبادل نہیں ہوسکتاہے تاہم اس رقم سے لاپتا افراد کے اہل خانہ کی مالی اعانت ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو لاپتا افراد کے اہل خانہ کے لیے ماہانہ بنیاد پر بھی مالی مدد کرنے کی ضرورت ہے جس سے لاپتا افراد کی فیملی کی مالی معاونت ہوسکے تاکہ لاپتا افراد کے اہل خانہ بھی پاکستان کے ایک عام شہری کی طرح اپنی زندگی آسانی کے ساتھ گزر سکیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے جب لاپتاافراد کمیشن قائم کیا گیا تھا تب لاپتا افراد کے مقدمات 150 سے کم تھے اور اب یہ تعداد10 ہزار کو چھو رہی ہے،گزشتہ برس کی نسبت رواں برس کی اوسط زیادہ ہے، اب پنجاب بھی زد میں ہے۔واضح رہے کہ 2 اگست 2024کو وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے5سال سے لاپتا افراد کے لواحقین کو 50، 50 لاکھ روپے دینے کے اعلان کیا گیا تھا تاہم 2ہفتے گزر جانے کے باوجود اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی لاپتا افراد کمیشن سے کوئی رابط کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔