اگرچہ ملک گیر لیبر فیڈریشنز کی جانب سے اس مزدور دشمن مجوزہ لیبر کوڈ کے خلاف سخت صدائے احتجاج بلند کرنے کے نتیجہ میں حکومت پنجاب اور حکومت سندھ کی جانب سے اس مسودہ کو تجاویز پیش کرنے کی غرض سے ملک کی معروف مزدور تنظیموں اور آجران کی تنظیموں کو ارسال کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مزدور رہنماؤں کی اکثریت نے حکومت کے اس عمل پر اپنے شدید تحفظات اور خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے محض ایک دکھاوا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دراصل دونوں صوبائی حکومتیں درپردہ طور پر اس متنازعہ لیبر کوڈ کے نفاذ کا تہیہ کیے بیٹھی ہیں۔
واضح رہے کہ 19،اپریل 2010ء کو ملک میں آئینی اصلاحات کے نام پر دستور پاکستان میں بلا کسی بحث و مباحثہ کے منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق کی ہم درجہ فہرست (Concurrent list) کا خاتمہ کرکے 15 وفاقی وزارتوں محنت، تعلیم، صحت، ترقی نسواں، امور نوجوانان، بہبود آبادی، زکوٰۃ و عشر، سیاحت اور آثار قدیمہ کے شعبوں کو چاروں صوبوں کو منتقل کردیا گیا تھا۔ جس کے باعث کروڑوں افراد پر مشتمل محنت کش طبقہ وفاقی اکائی سے نکل کر چاروں صوبوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس آئینی ترمیم کے نتیجہ میں دیگر اہم شعبوں کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقہ کے مفادات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
حکومت سندھ کے محکمہ محنت و انسانی وسائل کے مطابق مجوزہ سندھ لیبر کوڈ- 2024 متعارف کرانے کا بنیادی مقصد صوبہ میں مروجہ 21 مزدور قوانین بشمول صنعتی وتجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968ء، فیکٹریز ایکٹ، قانون صنعتی تعلقات اور شاپ اینڈ اسٹبلشمنٹ کے قانون کو مستحکم کرکے انہیں قانونی شکل دینا ہے۔
لیکن اگر مجوزہ لیبر کوڈ-2024ء کے مسودہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس کی سب سے قابل اعتراض شقوں میں سے ایک اہم شق کارکنوں (Workmen) کی تعریف کو وسعت دینے کے نام پر ہر کام کرنے والے کو ملازم (Employee) کا درجہ قرار دینا ہے۔ گویا اب اس نئے مزدور ضابطہ کی رو سے ہر صنعتی ادارہ کے سپر وائزر، افسران اور کارکن کو بھی ملازم (Employee) تصور کیا جائے گا!۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں محنت کش اپنے حقوق کا مطالبہ آخر کس سے کریں گے اور ان کا اصل آجر (Principal Employer) کون ہوگا۔؟ کیونکہ مجوزہ لیبر کوڈ میں آجر (Employer) کی تعریف میں پرنسپل (Principal) یعنی اصل مالک کے ساتھ ساتھ ادارہ کو کنٹرول کرنے والے قابض فرد (Occupier) اور ٹھیکیداروں کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔ یوں اس لیبر کوڈ کے نفاذ کی صورت میں کسی بھی ادارہ کا اصل مالک ان ذیلی عناصر کے پیچھے چھپنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ جس سے بطور آجر محنت کشوں کو اپنے حقوق طلب کرنے ہیں۔
ماہر مزدور قوانین کے مطابق مجوزہ لیبر کوڈ-2024 اپنے بیانیے میں خود شدید تضادات اور اُلجھنوں کا شکار ہے۔ مروجہ مزدور قوانین، صنعتی وتجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) مجریہ 1968ء میں محنت کشوں کی غیر مستقل اور مستقل ملازمت کی وضاحت کی گئی ہے۔ جس کی رو سے کسی محنت کش کی ملازمت مسلسل 90 یوم تک جاری رہنے کی صورت میں وہ کارکن قانون کے مطابق ملازمت پر از خود مستقل ہوجاتا ہے۔جبکہ مجوزہ لیبر کوڈ میں اس قانون کے برعکس کارکنوں کی ملازمت کے معاہدہ یعنی ملازمتی ٹھیکہ (Employment contract) کو محدود اور لامحدود مدت کے ٹھیکہ (Fixed-term and indefinite term contract) میں تبدیل کرکے صنعتی اداروں میں محنت کشوں کی بدترین ٹھیکہ داری نظام کے ذریعہ بھرتی کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ گویا یہ لیبر کوڈ-2024 استحصالی ٹھیکیداری نظام کے قانونی ہونے پر اپنی مہر ثبت کرتا ہے۔ اس صورت حال کے نتیجہ میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اس عمل کے نتیجہ میں ملک کے صنعتی شعبہ میں نا صرف استحصالی ٹھیکیداری نظام مضبوط و توانا ہوگا بلکہ کارکنوں کے لیے مستقل ملازمتیں بھی ایک خواب بن کر رہ جائیں گی۔
مزید برآں یہ مجوزہ لیبر کوڈ مروجہ مزدور قوانین کے تحت کارکنوں کے تحفظ ملازمت پر ایک اور کاری وار کرتے ہوئے روزگار فراہم کرنے والے اداروں (Employment Agencies) کا ایک نیا قانون بھی متعارف کراتا ہے جس سے خدشہ ہے کہ مستقبل میں روزگار فراہم کرنے والے ادارے لاکھوں محنت کشوں کو ان کے استحقاق کے بر خلاف محض اپنی من مانی شرائط پر صنعتوں، کارخانوں، کاروباری اور تجارتی اور دیگر اداروں میں مطلوبہ افرادی قوت فراہم کرنے کے مجاز ہوں گے۔
مجوزہ لیبر کوڈ-2024 اپنے مسودہ میں جا بجا محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس کے اصل آجر کے بجائے اس کے حقوق کی پاسداری کی ذمہ داری متعلقہ ٹھیکیدار پر عائد کرتا ہے۔ اسی طرح مجوزہ لیبر کوڈ صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں کارکنوں کے ایک بنیادی حق ٹریڈ یونین کے کردار کو کمزور کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس کے تحت صنعتی اداروں میں اجتماعی سودا کار ایجنٹ (CBA) کے علاوہ ادارہ میں دوسری ٹریڈ یونین کو بھی صنعتی حقوق اور صنعتی تنازعات پر آواز بلند کرنے اور ہڑتال کا حق فراہم کیا گیا ہے۔ مجوزہ لیبر کوڈ کام کی جگہ صحت و حفاظت (Health and Safety) کے قوانین کے تحت صنعتی حادثات کی صورت میں اس کی ذمہ داری بیک وقت ٹھیکہ دار، قابض فرد (Occupier) اور مشینری و پرزہ جات کے فراہم کنندہ کو قرار دے کر صنعت کے اصل مالک (Principal Employer) کو اس سے بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ اسی طرح مجوزہ لیبر کوڈ میں غیر رسمی شعبہ (Informal Sector) کے محنت کشوں یعنی زرعی مزدوروں، گھریلو ملازمین، گھر پر بیٹھ کر روزی کمانے والوں، تعمیراتی کارکنوں، پلیٹ فارم کارکنوں اور زیر تربیت کارکنوں کو ’’رسمی مزدور‘‘ کا سبز باغ دکھاتے ہوئے ان کے لیے ایک علیحدہ عدالتی نظام اور نگراں کمیٹیوں کے قیام کے نام پر اس طبقہ کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ مجوزہ لیبر کوڈ میں سب سے بڑا ظلم ملک کے طول و عرض میں بھٹوں میں خدمات انجام دینے والے ہزاروں مظلوم بھٹہ و خشت مزدوروں ( Klin Workers) اور جبری مزدوروں کی جبری مشقت کو باقاعدہ کرکے ان کو ادا کردہ پیشگیوں(Advances) کو ایک خاص حد تک جائز قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں ملک میں جبری مشقت (Forced Labour) جیسے ظالمانہ نظام کے خلاف چلائی جانے والی طویل جدوجہد اور مروجہ قوانین پر کالی سیاہی پھیردی گئی ہے۔
ایک محتاط جائزہ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 95 فیصد سے زائد کارکن اپنے صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں اداروں میں خدمات انجام دینے کے باوجود باقاعدہ تقرر ناموں (Appointment letters) سے محروم ہیں۔ لہٰذا اپنی ملازمت کی دستاویزی شناخت نہ کے باعث لاکھوں کارکن محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے گئے وفاقی و صوبائی سرکاری اداروں خصوصاً EOBI,WWF,ESSI کی تاحیات پنشن، اپنے اور اہل خانہ کے علاج و معالجہ کی سہولیات، بچوں کی تعلیم اور رہائشی سہولیات اور دیگر قانونی فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ آف پاکستان 8 دسمبر 2017ء کو اپنے ایک تاریخی فیصلہ میں ملک میں صنعت و حرفت کے شعبہ میں رائج بدترین ٹھیکیداری نظام یا فریق سوم (Third Party) نظام کو سراسرغیر قانونی قرار دے چکی ہے اور ایسے تمام آجران کو ہدایت کی گئی تھی کہ ٹھیکیداری نظام کے تحت خدمات انجام دینے والے کارکنوں کو ان کی سابقہ مدت سے ان کی ملازمتوں پر مستقل کیا جائے۔ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس واضح فیصلہ کے باوجود انتہائی بااثر اور قانون سے بالاتر آجران برادری نے آج تک اس فیصلہ پر عملدرآمد نہیں کیا، جو ہم سے کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
لہٰذا اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر ملک کی 11بڑی مزدور فیڈریشنوں نے اپنے 24 جولائی 2024ء کیاعلان لاہور کے ذریعہ پنجاب و سندھ مجوزہ لیبر کوڈ-2024ء کو یہ کہتے ہوئے یکسر مسترد کردیا ہے کہ مروجہ مزدور قوانین ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کش طبقہ کی گزشتہ 77 برس کی طویل جدوجہد ،لازوال قربانیوں، قید و بند کی صعوبتوں اور صبر آزما قانونی جنگ کے نتیجہ میں میسر آئے ہیں اور ہم کسی قیمت پر اسے کھونا نہیں چاہتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ملک کے اکثر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں ان مزدور قوانین پر بھی کما حقہ عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ لیبر فیڈریشنز کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ یہ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہم اس مجوزہ لیبر کوڈ-2024 کو کسی قیمت پر بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ حکومت پنجاب اور حکومت سندھ پر یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک میں کسی بھی نئے مزدور قوانین کے نفاذ سے قبل طے شدہ سہ فریقی مشاورت کے ذریعہ جملہ آجران اور مزدور فیڈریشنوں کو ضرور اعتماد میں لیا جائے تاکہ اس کی بدولت نا صرف ملک کے کروڑوں محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے بلکہ ملک کے ہزاروں صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں صنعتی امن کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پیداواری عمل کو بھی جاری رکھا جاسکے۔
(ختم شد)