فی قیدی تین چمچ چاول

391

چند ہفتے قبل اسی صفحے پر ’’اسرائیلی گوانتانامو‘‘ کے عنوان سے فوج کے زیر ِانتظام سدی تیمان کیمپ میں چار ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں پر ہر طرح کے اذیتی تجربات آزمائے جانے کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا۔ اس بابت ایک وکیل کے روبرو ایک قیدی کے شہادتی بیان کا خلاصہ بھی اس کالم کا حصہ تھا۔ تب تک اب تک پچپن دیگر فلسطینی قیدی رہائی کے بعد میڈیا کو خبردار کر چکے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں بالخصوص سدی تیمان کیمپ کی خاردار تاروں کے پیچھے کیا قیامت برپا ہے۔ مگر ان بیانات کی سنجیدہ چھان پھٹک کے بجائے مغربی ذرایع ابلاغ نے حسب ِ معمول روایتی واویلا فرض کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ حالانکہ ان روح فرسا واقعات کی بازگشت انسانی حقوق کی فلسطینی، اسرائیلی و بین الاقوامی تنظیموں کے دفاتر سے اسرائیلی عدالت عظمیٰ تک ہر جگہ پچھلے کئی ماہ سے سنائی دے رہی ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں سات اکتوبر کے بعد سے جاری غیر انسانی سلوک کے سبب جو ساٹھ سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ ان میں سے صرف سدی تیمان کیمپ میں اب تک چھتیس فلسطینی قیدی مار دیے گئے ہیں۔ دو ہزار آٹھ اور چودہ میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران بھی اس کیمپ میں سیکڑوں فلسطینیوں کو رکھا گیا۔

اب ایک لیک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اسے اسرائیل کے چینل بارہ پر ایک رپورٹ کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ لگ بھگ تیس فلسطینی قیدی گودام نما ہال میں اوندھے بندھے پڑے ہیں۔ سب کی آنکھوں پر پٹی ہے۔کیمپ کی حفاظت پر مامور اسرائیل کے ریزرو یونٹ نمبر ہنڈرڈ کے دس سے گیارہ فوجی اس ہال میں داخل ہوتے ہیں اور ایک قیدی کو بازوئوں سے پکڑ کے ہال کے ایک کونے میں لے جاتے ہیں۔ ان فوجیوں نے نگراں کیمروں سے بچنے کے لیے اپنے اوپر حفاظتی ڈھالیں تانی ہوئی ہیں۔ دوسرے منظر میں لیٹے ہوئے قیدی کے اوپر تین ڈھالیں ہیں اور ان کے سائے تلے جو دو فوجی نظر آ رہے ہیں وہ کوئی کارروائی کر رہے ہیں۔

جب اس قیدی کو کئی گھنٹے بعد حالت انتہائی غیر ہونے کے سبب جیل کے اسپتال پہنچایا جاتا ہے اور ڈاکٹر معائنہ کرتے ہیں تو خود انہیں یقین نہیں آتا کہ کس طرح کوئی نوکیلی دھاتی شے کسی انسان کی پشت میں ایسے گھسائی جائے کہ اس کی انتڑیاں تک ادھڑ جائیں اور مسلسل خون رسنے سے دھڑ مفلوج ہو جائے۔

جب خاردار تاروں کے پار کی دنیا نے یہ ویڈیو رپورٹ دیکھی تو عراق کی ابوغریب جیل اور گوانتانامو میں تشدد کو اگلے لیول تک پہنچانے والے ملک امریکا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ شاگرد (اسرائیل) گرو (امریکا) سے اس میدان میں بھی بازی لے گیا۔ ترجمان نے میڈیا کا منہ بند کرنے کے لیے کہا کہ قیدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی اور ریپ جیسی اذیتوں کی بابت امریکا کی پالیسی ’’زیرو عدم برداشت‘‘ ہے۔ امید ہے اسرائیلی فوج کا محکمہ انصاف مجرموں کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچائے گا۔

مگر خود اسرائیل میں کیا ہوا؟ ملٹری پولیس نے سدی تیمان کیمپ میں متعین دس ریزرو فوجیوں کو حراست میں لے لیا۔ ان میں سے تین کو رہا کر دیا گیا۔ باقی سات کے خلاف ہنوز چھان بین جاری ہے اور باضابطہ فردِ جرم دو ہفتے بعد بھی عائد نہیں ہو پائی۔ سیکڑوں اسرائیلی شہریوں نے سدی تیمان کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے قومی جھنڈے بلند کیے ہوئے تھے اور گرفتار ’’ریپ ہیروز‘‘ کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔

سرکردہ اسرائیلی رباعی ایال کارم نے دو ہزار دو میں فتویٰ دیا تھا کہ حالتِ جنگ میں دشمن کی عورتوں کا ریپ جائز ہے۔ دس برس بعد انہوں نے کہا کہ ان کے فتوے کو غلط معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ دو ہزار سولہ میں ایال کارم کو اسرائیلی فوج کا چیف رباعی مقرر کر دیا گیا۔ وہ آج تک مسند پر براجمان ہیں اور اسرائیلی فوجی اقدامات کو توراتی تعلیمات کی روشنی میں پرکھنے کی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔

ان حالات میں سدی تیمان کے دس ریپسٹس کے خلاف زیادہ سے زیادہ کیا کارروائی ہو گی۔ یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ ویسے بھی ریاستی سطح پر گزشتہ چھہتر برس سے یہ دعویٰ متواتر ہے کہ اسرائیل کی فوج اخلاقی اقدار کی پاسداری کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بااخلاق سپاہ ہے۔ ہر اسرائیلی شہری اس دعوے پر یقین بھی رکھتا ہے۔ ان پر یقین لوگوں میں وہ سیکڑوں شہری بھی شامل ہیں جو گرفتار ریپسٹ فوجیوں کی رہائی کے حق میں قومی جھنڈے اٹھائے مظاہرے کر رہے ہیں۔

اگر انتہائی ’’بااخلاق فوج‘‘ لاکھوں لوگوں کو گھروں سے بے دخل کر کے سرحد پار دھکیل سکتی ہے، ہزاروں عورتوں بچوں کو غیر معینہ عرصے تک قید رکھ سکتی ہے۔ نسل کشی کے لیے ہردم تیار ہے اور ریپ سمیت ہر ممکن ہتھیار آزما سکتی ہے تو سوچیے اگر یہی فوج ’’بداخلاق‘‘ ہوتی تو کیا کیا نہ کرتی؟

یہ کوئی ایک قید خانے کی داستان نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کو اس وقت غزہ نامی دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بند تیئس لاکھ قیدیوں کی زندگیوں سے کھیلنے اور بھوک پیاس اور دوائوں کے قحط سے مارنے کی کس قدر لامتناہی کھلی چھوٹ ہے۔ عالمی ادارہِ صحت تصدیق کر چکا ہے کہ غزہ جہاں اب صرف غلیظ پانی ہی دستیاب ہے۔ اس پانی میں پولیو وائرس پھل پھول رہا ہے اور غزہ کے بچوں کے لیے ہنگامی طور پر ایک ملین ویکسین خوراکیں بھیجنے کے لیے فوجی کارروائی میں وقفہ ضروری ہے۔ مگر اس بارے میں اسرائیل پر کسی طرف سے دبائو نہیں کہ وہ اربوں ڈالر کے کامیاب عالمی منصوبے کے غیر معمولی ثمرات کو خطرے میں نہ ڈالے جس کے نتیجے میں سوائے پاکستان اور افغانستان ہر جگہ سے پولیو مٹایا جا چکا ہے۔ جو قیدی باقاعدہ جیلوں میں بند ہیں انہیں بھی مٹانے کے لیے ’’گیم آف ہنگر‘‘ عروج پر ہے۔

کسی بھی جیل میں بین الاقوامی ریڈ کراس کا داخلہ بند ہے۔ اندر کی خبریں یا تو چھوٹنے والے قیدیوں یا ضمیر کے ہاتھوں نوکری چھوڑنے والے گنتی کے پہرے داروں کے ذریعے رستی رستی پہنچ جاتی ہیں۔ مثلاً ایک جیل سے باہر آنے والے ایک زندہ قیدی عاطف اواد کے مطابق گیارہ قیدیوں کو روزانہ دو پلیٹ بھر چاول ملتے ہیں۔ یعنی فی کس تین چمچے چاول۔ عاطف جب قید سے نکلا تو اس کا وزن پچیس کلو تک کم ہو چکا تھا۔ گھر والے بھی نہ پہچان پائے۔

اسرائیلی وزیر ِ خزانہ بیزل سموترخ نے تازہ بیان میں کہا ہے کہ جب تک اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں ہوتے بیس لاکھ فلسطینیوں کو بھوکے مارنا جائز ہے۔ یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل اور جرمنی و فرانس کے وزرائے خارجہ نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے نیتن یاہو حکومت سے وزیر کے بجائے وزیر کے بیان سے لاتعلقی کا مطالبہ کیا ہے (ایک زوردارِ قہقہہ بر اشرافیہ ِ غرب)۔

ایسا نہیں کہ مسلمان ممالک اس المیہ ِ عظیم سے لاتعلق ہیں۔ گزشتہ ہفتے جدہ میں اسلامی کانفرنس وزرائے خارجہ کے یک روزہ غیر معمولی ہنگامی اجلاس میں ایک بار پھر موئے اسرائیل کو اسی طرح بددعائیں دی گئیں جس طرح دوپٹے پھیلا پھیلا کے ردالیاں لاش پر بین کرتی ہیں۔