بھارتی میڈیا میں شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد ایک صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مودی حکومت کے پروردہ دانشور اور وی لاگر اب بنگلا دیش میں آنے والی تبدیلی کو ایک نیا رخ دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ شیخ حسینہ امریکا اور مغرب کی رجیم چینج پالیسی کا شکار ہوئیں۔ ان کی سازشی تھیوری کا خلاصہ یہ ہے امریکا نے شیخ حسینہ سے بنگلا دیش اور میانمر کے درمیان ایک عیسائی ریاست کے قیام کے لیے مدد اور تعاون مانگا تھا۔ جس میں کچھ علاقے میانمر اور کچھ بنگلا دیش سے حاصل کرنا تھا مگر شیخ حسینہ نے انکار کیا جس کے بعد امریکا نے انہیں سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کہانی میں امریکا کے انڈر سیکرٹری کے بنگلا دیش کے تین دوروں اور ڈھاکہ میں امریکی سفیر کی سرگرمیوں اور کچھ عالمی این جی اوز کی سرگرمیوں کے حوالے بھی دیے جا رہے ہیں۔ بھارت کا میڈیا اس سازشی تھیوری کو پوری قوت سے آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کہانی میں شیخ حسینہ کی پالیسیوں اور پندرہ برس کے طرز حکمرانی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ بھارتی میڈیا کے غصے کا یہ لیول اس وقت دیکھنے کو ملا تھا جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تھے اور بھارت اپنے شہریوں کو جہازوں میں بھر کر واپس لے گیا تھا۔ اس وقت بھی یوں لگ رہا تھا کہ بھارت میں آسمان ٹوٹ گرا ہے اور اس کی دنیا کی اْجڑ گئی ہے۔ افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کرکے بھارت نے وہاں مستقل قیام کا سامان کر رکھا تھا اور اس دوران طالبان کی اْفتاد آن پڑی اس لیے بھارت کا غم وغصہ بے سبب نہیں تھا۔ کچھ یہی حال بنگلا دیش کا ہے جہاں پندرہ برس میں بھارت نے ہر شعبے میں سرایت کرکے بنگلا دیش کی فیصلہ سازی پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
وقت کا دھارا مڑ گیا تو عوام کے غیظ وغضب کی زد جہاں شیخ حسینہ پر پڑی وہیں ان کے سرپرست کے طور پر بھارت بھی اس نفرت کا فطری حصہ دار ٹھیرا۔ اب بھارتی میڈیا کی چیخ وپکار بھی فطری ہے۔ بھارتی میڈیا امریکا کی سازش اور رجیم چینج کا افسانہ لے کر سامنے آیا۔ شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد نے اپنی ماں کی حکومت ختم ہونے پر جو پہلا ردعمل دیا تھا اس میں انہوں نے حالات کا ذمے دار چین کو ٹھیرایا تھا۔ اب اس ساری صورت حال کا ذمے دار چین ہے یا امریکا؟ یہ بھارتی میڈیا اور شیخ حسینہ کے بیٹے کے درمیان طے ہونا باقی ہے۔ اگر چین اور امریکا نے مل کر شیخ حسینہ کی حکومت کو ہٹایا تو پھر یہ اس صدی کا لطیفہ ہی ہے۔ بھارتی میڈیا اس افسانہ طرازی سے مستقبل کی بیانیہ سازی کر رہا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ شیخ حسینہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ بنگلا دیش کی وحدت اور اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کے عزم کا شکار ہوئیں۔ یہ تقریباً وہی انداز ہے جس نے عمران خان کو حکومت گرائے جانے کے بعد عوام میں مقبول بنایا تھا۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سائفر کا شاخسانہ قرار دے کر عوام کے قومی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے جذبات کو بیدار کیا تھا۔ یہاں پاکستان اور بنگلا دیش کے حالات میں بنیادی فرق ہے۔ پاکستان پر چونکہ امریکا کا گہر اثر رسوخ ہے اس لیے پاکستان میں امریکا مخالف جذبات ہمیشہ سے موجود ہوتے ہیں۔ کبھی حالات کے مطابق یہ جذبات کم تو کبھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے جب عمران خان نے ان جذبات کو سائفر کی دیا سلائی دکھائی تو آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ اس سے پہلے افغانستان پر امریکا کے حملے کے بعد دفاع افغانستان وپاکستان کونسل نے بھی امریکا مخالف جذبات کو اْبھار کر ایک سماں باندھ دیا تھا۔ بنگلا دیش کی صورت حال اس سے مختلف ہے۔
بنگلا دیش کئی اطراف سے بھارت کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ بھارت بنگلا دیش کو اپنی ڈیو ڑھی بنا رکھا ہے۔ شیخ حسینہ نے زندگی کے ہر شعبے میں بھارت کو دخیل کرکے بنگلا دیش کے ایک بڑے طبقے کو آزادی اور اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے مزید حساس بنادیا۔ اسی لیے جب بنگلا دیش کے مشتعل طلبہ شیخ مجیب کے مجسمے گرا رہے تھے وہیں وہ دیواروں پر بنے بھارت کے جھنڈوں کو کھرچ اور ان پر ڈنڈے برسا کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ پاکستان میں جو صورت حال امریکا کی ہے بنگلا دیش میں وہی مقام بھارت کا ہے۔ شیخ حسینہ نے بھلے سے امریکا کے مقابلے میں چین اور روس کا ساتھ دیا ہو مگر جب بھارت اور چین میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کا وقت آیا تو شیخ حسینہ نے بھارت کا ساتھ دیا جس کے بعد چین کے ساتھ ان کے تعلقات میں مزید گرم جوشی میں کمی آگئی تھی یہاں تک شیخ حسینہ کو اپنا حالیہ دورۂ چین ادھورا چھوڑ کر ڈھاکہ لوٹنا پڑا تھا۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ کئی معاہدات کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ہم نے چین اور بھارت کے درمیان کام بانٹ دیا ہے۔ یوں شیخ حسینہ کی دلچسپی اور دوستی کا اصل محور بھارت ہی تھا۔ اسی لیے بھارتی میڈیا شیخ حسینہ لگیسی کا تاریخ میں زندہ رکھنے اور عوام میں بحال رکھنے کے لیے ان کے ایسے ’’ابسلیوٹلی ناٹ‘‘ کا ڈھنڈورہ مچارہے ہیں جس کا گواہ خود بھارتی میڈیا کے سوا کوئی اور نہیں۔ فی الحال بنگلا دیش بھارت مخالف جذبات کی لہروں میں بہہ رہا ہے۔ جذبات کچھ ٹھنڈے ہوں گے تو عوام کے پاس ان بیانیوں پر سوچنے کے لیے وقت ہوگا اور بھارتی میڈیا اسی وقت کے لیے یہ سارے تصورات پیش کر رہا ہے۔