گہر نکلے……………اقبال

152

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خْونِ شفَق میں ڈْوب کر نکلے

ہْوئے مدفونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گْہر نکلے