جماعت اسلامی کے دھرنے اور تاجر برادری کے شدید تحفظات اور احتجاج کے باوجود آئی پی پیز کا معاملہ فی الحال حل ہوتا نظر نہیں آرہا، ایف پی سی سی آئی کی جانب سے معاہدوں کو سپریم کورٹ لے جانے کے فیصلے سے بھی حکومت میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ۔ بجلی کے ریگولیٹر ادارے نیپرا کی ویب سائٹ پر پاکستان میں اس وقت کام کرنے والے بجلی کے کارخانوں کی تفصیلات موجود ہیں جو سنہ 1994 سے کام کر رہے ہیں یا اس کے بعد کی حکومتوں میں لگائے گئے۔ایسے نجی کارخانوں کی کْل تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے جو بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت کر رہے ہیں۔ ان کے معاہدے میں یہ لکھا ہے کہ حکومت اگر ان سے بجلی نہیں بھی لیتی تو ان کی پیدوار کی کیپیسٹی کی 80 فیصد ادائیگی ہر صورت کرنا ہو گی۔ اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں اس لئے جس بھی جماعت کی ملک میں حکومت آجائے آئی پی پیز پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا۔ ہماری انڈسٹری بند ہورہی ہے، برآمدات کم ہورہی ہیں، پورے ریجن میں 6 سینٹ فی یونٹ بجلی کی قیمت ہے جب کہ ہمارے ہاں 17 سینٹ قیمت ہے، صنعت کار اپنی فیکٹری بند کردیگا تو ملک کی معیشت کیسے بہتر ہوگی؟ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کی منسوخی موجودہ نازک صورتحال میں انتہائی ضروری ہے ۔ عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی اوراشتعال کسی بھی وقت بے قابوہوسکتا ہے اس لئے حکومت بروقت اقدامات کرکے صورتحال کوبگڑنے سے بچا لے جوکہ اسکے حق میں بہتررہے گا۔
کاروباری اداروں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت کو معیشت کیلئے خراب ترین حکومت قراردیا ہے اور مسلسل سیاسی انتشار اور بجٹ میں نئے ٹیکسز کے بوجھ کی وجہ سے کاروباری ادارے مستقبل کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکارہو گئے ہیں۔ گیلپ پاکستان کی بزنس کانفیڈینس انڈیکس 2024کی دوسرہ سہ ماہی کی رپورٹ کے مطابق موجودہ کاروباری صورتحال،مستقبل کی کاروباری صورتحال اور ملک کی سمت کا اسکو ر4سے 10فیصد تک کم ہوگیا ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق سروے کے ایک قابلِ ذکرشرکاء نے کہاکہ مالی سال 2024-25کیلئے حکومت کا مالیاتی پلان کاروبار کیلئے موزوں نہیں ہے جبکہ 5میں سے 2کاروباری ادارے مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ سروے کے مطابق نصف سے زائد تقریباً54فیصد کاروباری ادارے مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کومعیشت سنبھالنے میں گزشتہ حکومت کے مقابلے میں ناکام ترین حکومت سمجھتے ہیں جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے 23فیصد کاروباری اداروں کاکہنا ہے کہ پچھلی اور موجودہ حکومتیںایک جیسی ہیں۔ سروے کے نتائج کے مطابق 85فیصد کاروباری ادارے موجودہ حکومت کے مالیاتی منصوبے کو “اچھا بجٹ” نہیں سمجھتے جبکہ 11فیصد مینوفیکچررز اور 15فیصد سروس پرووائیڈرز نے کہاہے کہ بجٹ کاروبار دوست ہے جبکہ حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے ٹیکس مسائل کا حل چاہنے والے کاروباری اداروں کی تعداد پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں کافی بڑھ گئی ہے۔ پہلی سہ ماہی کی طرح اس سہ ماہی میں بھی زیادہ تر کاروباری اداروں کا مسئلہ مہنگائی ہے اور 5میں سے 2تقریباً 37فیصد کاروباری ادارے چاہتے ہیں کہ حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرے۔ جون میں مہنگائی 12.6فیصد تک بڑھ گئی تھی اورکمر توڑی مہنگائی کی وجہ سے صارفین کی قوتِ خرید مسلسل کم ہورہی ہے۔ کاروبارے ادارے مستقبل کے بارے میں زیادہ مایوسی کا شکارہیں اور 57فیصد کاروباری اداروں نے مستقبل کے بارے میں منفی توقعات کا اظہار کیا ہے جبکہ صرف 43فیصد نے مستقبل میں حالات کے بہتر ہونے کی امید کا اظہار کیا ہے۔ مستقبل کے خالص کاروباری اعتماد کا اسکور گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں 36فیصد کم ہوکر منفی 14فیصد ہوگیا ہے۔
وفاقی حکومت نے مختلف پاور پلانٹس کو ادائیگی کے لیے رواں مالی سال 2091 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس بڑی رقم میں جوہری پلانٹس کے لیے سب سے زیادہ 465 ارب 70 کروڑ روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق پن بجلی پلانٹس کی کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ 446 ارب40 کروڑ روپے ہے، درآمدی کوئلے کے پاورپلانٹس کے لیے کیپسٹی پیمنٹس کاتخمینہ 395 ارب40 کروڑ روپے ہے، رواں مالی سال تھرکول پاور پلانٹس کے لیے256 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل این جی پاورپلانٹس کے لیے کیسپٹی پیمنٹس کا تخمینہ 168 ارب روپے لگایا گیا ہے، ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کے لیے کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ 168 ارب روپے ہے، فرنس آئل والے پاور پلانٹس کے لیے کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ81ارب 33کروڑ روپے ہے۔ذرائع کے مطابق گیس کے پاور پلانٹس کے لیے کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں61 ارب21 کروڑروپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سولر پاور پلانٹس کی کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ 41 ارب 63 کروڑ روپے لگایا گیا ہے، اس کے علاوہ گنے کی پھوک والے پلانٹس کے لیے کیپسٹی پیمنٹس کا تخمینہ 6 ارب 90کروڑ روپے ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا تھا کہ بجلی کی پیداواری قیمت 8 سے 10روپے فی یونٹ ہے جبکہ سب سے بڑا خرچہ 18 روپے فی یونٹ کیپسٹی چارجز کا ہے۔
بجلی کے ترسیلی نظام کے چارجز فی یونٹ ڈیڑھ سے 2 روپے ہیں جبکہ ڈسکوز کے اخراجات فی یونٹ 5 روپے پڑتے ہیں، سب سے بڑا خرچہ 18 روپے فی یونٹ کیپسٹی چارجز کا ہے، بجلی کے ریٹ بڑھنے سے بجلی کے استعمال میں کمی ا?ئی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ساہیوال کول پلانٹ کے 2015 میں کیپسٹی چارجز تین روپے فی یونٹ تھے، ڈالر کی قیمت بڑھنے اور شرح سود 22 فیصد تک ا?نے کی وجہ سے کیپسٹی چارجز بڑھ کر 11 روپے 45 پیسے فی یونٹ ہوگئے۔وفاقی وزیر توانائی نے بتایا تھا کہ اس وقت توانائی سیکٹر کے قرضوں کا بوجھ بجلی صارفین سے لیا جا رہا ہے، اگر ان پلانٹس کو چلائیں گے تو وہ ا?پ کو تیل کا خرچہ لگا کر ا?پ سے پیسے لیں گے، اگر پلانٹس کو نہیں چلائیں گے تو بھی وہ ان پلانٹس کی مد میں اپنا سرمایہ لگانے اور منافع کے پیسے ا?پ سے لیں گے۔وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھاکہا کہ پلانٹس پر درا?مد شدہ کوئلے کے استعمال کے بجائے مقامی کوئلے کو استعمال کیا جائے تو فی یونٹ دو ڈھائی روپے کمی ا?ئے گی، بند پلانٹس پر ساڑھے 7 ارب روپے کی تنخواہیں دی جارہی ہیں۔انہوں نے بتایا تھا کہ ڈسٹریبویشن کمپنیوں کا 500 سے 600 ارب روپے سالانہ خسارہ ہے، اگلے دو سے تین سال میں قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے علاوہ دیگر تمام ڈسکوز نجی سیکٹر کو دیں گے۔اویس لغاری نے کہا تھا کہ ہر سال مہنگائی اور شرح سود کی وجہ سے بجلی کے ریٹ میں ردوبدل ہوتا ہے، پچھلے ہفتے بجلی کی قیمت میں 7 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا، 2019 کے بعد حکومت نے بجلی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھنے نہیں دی، ماضی کی حکومت نے اپنے سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے بجلی کی قیمت نہیں بڑھائی۔ بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ تین سے چار سال بعد ہوا ہے، بجلی کی فی یونٹ قیمت ہر سال آہستہ آہستہ بڑھنی چاہیے تھی۔
ملک میں 25 فیصد آئی پی پیز بند ہیں،اس کے باوجود بند آئی پی پیز کوماہانہ 10ارب روپے کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور بزنس کمیونٹی کی جانب سے ادا کیا جانے والا ٹیکس آئی پی پیز مافیا کے حوالے کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت مشکلات سے دوچار ہے۔ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کی منسوخی موجودہ نازک صورتحال میں انتہائی ضروری ہے -نویدبخاری نے کہا کہ کرائے کے بجلی گھروں کے ساتھ ہونے والے معاہدے جلد بازی میں کیے گئے ہیں اور اس میں ملکی مفاد کو مدنظر نہیں رکھا گیا، کرائے کے بجلی گھروں کے مالکان کو اربوں روپے سے زائد کی رقم ایڈوانس میں دی گئی، حکومت کہ آئی پی پیز سے معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور بجلی کمپنیوں کا انٹرنیشنل کمپنی سے آڈٹ کرایا جائے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے کہا ہے کہ سڑکوں پر احتجاج یا ہڑتالوں کے ذریعے اْٹھائے جانے والے مسائل پر توجہ تو دی جارہی ہے لیکن بعض انتہائی پریشان کن اور بڑے مسائل باالخصوص ناقابل برداشت حد تک توانائی کے بے پناہ نرخ، کاروباری لاگت اور ضرورت سے زیادہ ٹیکس وغیرہ کو قانون سازوں کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف تاجر برادری بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔یہ امر واقعی تشویشناک ہے کہ کے سی سی آئی اور پاکستان بھر کے چیمبرز آف کامرس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ٹریڈ باڈیز وقتاً فوقتاً پریس کانفرنسز اور میڈیا بیانات کے ذریعے مسلسل اپیلیں جاری کر رہی ہیں تاکہ حکومت کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر قائل کیا جا سکے لیکن بدقسمتی سے تاجر پرادری آج تک ریلیف کی منتظر ہے۔