مسلم حکمرانو! ہوش کے ناخن لو

529

فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ شہادت کا تاج پہن کر جنت الفردوس میں اپنے خاندان کے 71 شہداء کی روحوں سے جا ملے جو زندہ ہیں اور اپنے ربّ سے رزق پا رہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کے نام کی نسبت ابراہیمؑ کے فرزند اسماعیل ؑ سے ہے جنہوں نے ربّ کے حضور قربان ہونے کی لازوال مثال قائم کی اور ربِّ کریم نے اس ادا اور خلوص کو ایسا دائمی قبولیت کا درجہ عطا فرمایا کہ دین ِ ابراہیمؑ کی قربانی شعائر اسلام قرار پائی اور امت مسلمہ قربانی کے عمل کو خوشی کے طور پر یوں مناتی ہے کہ ربّ کے حکم پر قربان ہو جانا ہی اصل زندگی ہے۔ سعادت کی زندگی گزارنے والے کی دلی تمنا شہادت ہی ہوتی ہے۔ مگر یہ رتبہ بلند جس کو ملا‘ اُس کو مل گیا۔ یوں تو ہر جنگ میں فتح کا پھریرا لہرانے والے خالد بن ولید جو اللہ کی تلوار کے تمغے سے سرفراز تھے، شہادت سے محرومی کا احساس لیے دنیا سے رخصت ہوئے۔ اسماعیل ہنیہ شہید کے نام کا جز ہنیہ ہے یہ ’’اُم ہانیہ‘‘ کے مشہور معروف عدل کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے قربانی اور عدل کی لاج خاندان بھر اور پھر اپنے لہو کے نذرانہ سے رکھی۔ اسماعیل ہنیہ جو پانچ مرتبہ قاتلانہ حملے سے بچ رہے اور چھٹے حملے میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ موت کا فلسفہ یہ ہے کہ اس کا ایک وقت معین ہے، یہ ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیںہوتی۔ یہ نظریہ ہی امت مسلمہ کو بے خوف و خطر آتش نمرود میں کود پڑنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

اسماعیل ہنیہ ایران کے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران گئے اور پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹر میں مقیم تھے۔ قدرت کی شان ہے کہ انقلاب کی پاسداران تنظیم اس انقلاب کی حفاظت کا وہ بندوبست نہ کرسکی جو ان کا تقاضا تھا۔ محفوظ ترین مقام بھی غیر محفوظ ہو تو پھر ملک کی سلامتی بھی کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔ یہ سیکورٹی کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ مگر ایران ایسے کئی جان لیوا حملوں کو ٹھنڈے پیٹ ایک گرم بیان دے کر برداشت کر چکا ہے اپنے اہم کمانڈر قاسم کی ہلاکت پر جب اس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو پہلے آگاہ کیا کہ حملہ کیا جا رہا ہے۔ یہ جنگی حکمت کچھ نہ سمجھے کوئی خدا کرے والی رہی۔ اب بھی ایران نے اسرائیل کو دھمکی دی ہے کہ اس خون کا بدلہ مناسب وقت پر لیا جائے گا۔

سیانے کہتے ہیں کہ جو گھونسا جنگ کے بعد یاد آئے اپنے منہ پر مار لے۔ مسلکی مار تو مسلم ممالک میں بڑی دور سے ایران مار رہا ہے کہ کچھ لوگ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو مسلکی بنا پر نرم چارہ ہونے کی بات ایران کے متعلق کر رہے ہیں۔ ربّ دلوں کے بھید جانتا ہے اس سے پہلے بھی اہم حماس کے کمانڈر اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے تو انگلیاں ایران کی طرف اٹھی تھیں۔ اسرائیل توکئی ماہ قبل ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اس سے برسر پیکار اہم افراد کو جو کہیں بھی ہوں گے حملے کا نشانہ بنائے گا۔ افسوس تو یہ ہے کہ مسلم حکمران بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں کچھ ایک بیان فرض کفایہ کے طور پر سمجھتے ہیںکہ ہم نے فرض ادا کردیا اور تم جانو اور تمہارا خدا۔

یہ بے حسی بتا رہی ہے کہ وہ وقت دور نہیںکہ اسلامی ریاستیں اسرائیل کے زیر نگوں ہوں گی اور اسرائیل کا توسیعی منصوبہ ان کی خود غرضی پورا کرے گی۔ مسلم تاریخ تو بتاتی ہے کہ ایک عورت کی پکار پر حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو سندھ بھجوایا اور یوں برصغیر میں اسلام پھیل گیا۔ کیا اب مسلم ریاستوں کا ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد یہودی مٹھی میں بند ہونے کا وقت آن لگا ہے۔ مسلم حکمرانو! ہوش کے ناخن لو۔