جس طرح وقت کی سفاک آمر حسینہ واجد کو اپنے ملک میں شکست دے کر بنگالی عوام خوشیوں کے شادیانے اور جشن منارہے ہیں۔ بنگالی اس جیت پر ایسے خوشیوں کا اظہار کر رہے ہیں جیسے وہ ابتدائی زمانے میں گوروں کو ہرا کر جشن منایا کرتے تھے جنہوں نے ہمارے اوپر صدیوں سے بالا دستی رکھی اب وہ ان کے سامنے سرنگوں ہوئے ہیں اسی طرح بنگلا دیشی عوام نے مغربی پاکستان کے جابر حکمرانوں کا تسلط صرف چوبیس سال تک برداشت کیا پھر خون کی ندیاں بہا کر اپنے آپ کو آزاد کروایا اور جب دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دینے دعویٰ کیا گیا۔ جب ہندوستان کے حکمرانوں نے متکبرانہ انداز میں مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے کاٹ کر الگ کیا تو ان کا خیال تھا کہ بنگالی مسلمان اب اپنی اسلامی شناخت فراموش کر کے ہندوستانی ریاستوں میں مدغم ہو جائیں گے اس موقع پر بھارتی فوجوں کی بڑی تعداد مشرقی بنگال میں متعین تھی پورے علاقے میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں ایک افرا تفری کا سماں تھا، عورتوں کے سہاگ لٹ چکے تھے پورا مشرقی بنگال درندوں کی آماجگاہ بن چکا تھا پاکستان کے نوے ہزار سے زیادہ فوجی اور شہری ہندوستان کی قید میں تھے جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ان کو بنگالی انتہا پسندوں سے بچا کر ہندوستانی فوج کی حفاظت میں رکھا گیا۔ دو قومی نظریے کو تباہ کرنے کے لیے ہندوستانی بریگیڈ نے ہی ان کی بنیاد رکھی جب کہ بنگالی مسلمانوں میں یہ بھی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ان کے لاکھوں ہم وطنوں کو مغربی پاکستان کے سفاک حکمران نے شہید کیا اور ان کی لاکھوں ماؤں، بہنوں کی بے عزتی کی اس کے باوجودہ وہ بنگالی مسلمان اپنے اصل نظریہ سے دور نہیں ہوئے۔ 1906ء میں جس قومی نظریہ کو پروان چڑھانا شروع کیا – اس کی ترویج وہ آج حسینہ واجد کے خلاف کامیاب تحریک چلا کر رہے ہیں۔
بنگالی مسلمانوں کا تحریک آزادی میں جو کردار رہا اس کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام پسند رہنماؤں کی تحریک اس کے بعد تیتو میر کی تحریک میں بنگالی مسلمانوں کا کردار بے مثال نظر آتا ہے۔ 1906ء میں مسلم لیگ کو قائم کرنے کے لیے بھی بنگالی مسلمان پیش پیش تھے، یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں میں بنگال کے مسلمان ہر تحریک میں صف اوّل ہی میں نظر آئے۔ نواب وقار الملک نواب محسن ملک ان سے جس طرح مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا پھر اس کے بعد شیر بنگال مولوی فضل الحق نے 1940ء کو قرارداد پاکستان لاہور کے منٹو پارک میں پیش کر کے پاکستان کی بنیاد رکھی اسی طرح حسین شہید سہروردی جو متحدہ بنگال کے وزیر اعظم تھے تحریک پاکستان کے داعی بن گئے پھر جب مغربی پاکستان کے جابر حکمرانوں نے ان کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے زیادتیاں شروع کر دیں اس کے باوجود وہ پاکستان کے خیر خواہ رہے مگر جب انسان کے بجائے زمین کا نعرہ بلند کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ٹکا خان نے مسلم بنگال کے لوگوں پر ظلم کیے تو مسلم بنگال کے لوگوں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ لوگ ہمیں اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتے اس کے باوجود کے اندرا گاندھی اور ہندوستان کی فوج نے مشرقی بنگال میں مداخلت کر کے دخل اندازی کی جس کے نتیجے میں بنگلا دیش کا قیام عمل میں آیا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب ہندوستان کے ایجنٹ اپنا حصہ جلد از جلد وصول کرنے کے لیے اس علاقے کی قیمتی اشیاء لوٹ لوٹ کر بھارت منتقل کرتے رہے اور جیسے ہی وہاں سے بھارتی فوج رخصت ہوئی، بنگالی مسلمانوں نے اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی اسلامی شناخت برقرار رکھی۔ یوں دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈوبنے سے بچا لیا۔
آج بنگالی مسلمان اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے جس تیزی سے ترقی کی منازل عبور کر رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کا قلعہ بنگالی مسلمان تعمیر کر رہے ہیں اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر مشرقی بازو میں نظر آرہی ہے۔ اس کے برخلاف مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئی جو انہوں نے متحدہ پاکستان کے بارے میں کی تھی جو مغربی پاکستان کی مشرقی پاکستان سے علٰیحدگی سے شروع ہو کر آج موجودہ مغربی پاکستان کے علاقوں میں مکمل طور پر درست ثابت ہو رہی ہے۔ آج پاکستان کے ہر علاقے سے دو قومی نظریے کی ترویج کے بجائے پانچ قومی نظریے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کا پرچم لہرانے والے شہید ہو رہے ہیں مسلمانوں کو فرقہ کی بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے۔
پنجاب میں اسلامی تعلیمات کے برعکس غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ اپنے ہم مذہبوں کو بھی زندگیوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہی حال سندھ کا ہے جہاں ہندو خاندانوں کی بچیوں کو زبردستی اٹھا کر ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہو رہا ہے۔ یہاں بھی قتل و غارت گری ایک عرصہ سے جاری ہے۔ یہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کا حال ہے یہی حال سرحدی علاقوں کا ہے جہاں کے لوگ اپنے ہی ہم مذہب ہم زبان ایک ہی تہذیب وتمدن رکھنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں، کوئی طالبان کے نام پر کوئی روشن خیالی کے نام پر یعنی دو قومی نظریے کا وجود ہی نظر نہیں آ رہا ہے۔ دو قومی نظریہ کو حکمرانوں نے قائد اعظم کی ایمبولینس میں ڈال کر ڈرگ روڈ پر سک سک کر جان بلب ہونے کے لیے چھوڑا، پھر اس ہی دو قومی نظریے کو لیاقت علی کے سینے میں گولی مار کر ختم کرنے کی کوشش کی، پھر ایوب خان کے فوجی بوٹوں میں دبا کر فنا کرنا چاہا، پھر مشرقی پاکستان میں ٹکا خان کے انسان کو ختم کرو زمین کو بچاؤ کے احکامات کی توپوں کے سامنے کھڑا کیا، پھر بھٹو کے اردو کے جنازے کو کاندھا دیا۔ اس دو قومی نظریے کو امریت کی نحوست نے نہ صرف اسلام پسند سیاستدان کو نگلا بلکہ ملک کے اندر انتشار اور خانہ جنگی کی بنیادیں فراہم کر کے دو قومی نظریے کو امیر عبد اللہ خان نیازی کے کفن میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ 21 توپوں کی سلامی دیگر دفن کرنے کے باوجود یہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں تو غرق نہیں ہوا لگتا ہے دریائے سندھ و راوی کی نہر میں ڈبو نے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ اس کا جواب آج دریائے برہم پتر سے مل رہا ہے۔