حماس کے رہنما سامی ابو زہری نے رائٹرز نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کا انتخاب قابض اسرائیل کے لیے یہ پیغام ہے کہ ’’تمہارا اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کرنا درست نہیں تھا اور اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے‘‘۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک کی جانب سے سات اکتوبر حملے کے منصوبہ ساز رہنما یحییٰ السنوار کو شہید اسماعیل ہنیہ کی جگہ تنظیم کا سربراہ مقرر کیے جانے کے بعد امریکا نے پہلا ردعمل ظاہر کر دیا ہے۔ ایران کی سحر نیوز کا کہنا ہے کہ فلسطینی گروہوں حزب اللہ لبنان اور یمن کی تحریک انصاراللہ نے کہا ہے کہ حماس کے سربراہ کی حیثیت سے یحییٰ السنوار کا انتخاب اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فلسطینی رہنماؤں کو شہید کرنے کی صہیونی حکومت کی سفاکانہ پالیسی ناکام ہوگئی ہے۔
اسرائیل نے یحییٰ السنوار کو شہید کرنے اعلان کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے السنوار کو حماس کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں ’’بڑا دہشت گرد‘‘ قرار دیا ہے۔ کاٹز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر پیغام میں لکھا ہے کہ: ’’یحییٰ السنوار کو اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کا نیا سربراہ مقرر کرنا اس بات پر ہمیں مزید قانع کرتا ہے کہ جلد از جلد انہیں قتل کر دیا جائے تاکہ دنیا ان کی شریر تنظیم سے پاک ہو سکے‘‘۔ اسرائیل یحییٰ السنوار کو اسرائیلی علاقے میں یہودی بستیوں اور فوجی ٹھکانوں پر حملوں کا منصوبہ ساز سمجھتا ہے اور تل ابیب نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری کا اعلان کر رکھا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے بالواسطہ انداز میں اس تعیناتی پر ردعمل کا ظاہر کرنا حماس میں کمان کی تبدیلی کے معاملے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یحییٰ السنوار کے تقرر پر بات کرتے ہوئے انٹونی بلنکن نے کہا کہ السنوار کا حماس کی عسکری اور سیاسی پالیسی سازی کے فیصلوں میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ بلنکن نے کہا کہ حماس کا یحییٰ السنوار کو قیادت کے منصب پر فائر کرنا اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاملے میں فیصلہ السنوار کا ہو گا۔ بلنکن کے بقول ’’یحییٰ السنوار سیز فائر سے متعلق مذاکرات میں پہلے بھی حتمی فیصلے کا اختیار رکھتے تھے۔ اب یہ السنوار کی ذمے داری ہے کہ وہ سیز فائر کے معاملے کو آگے بڑھانے سے متعلق کوئی بات طے کریں۔ حماس کے رہنما ڈاکٹر خلیل الحیا غزہ میں فائر بندی تک پہنچنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ بلا واسطہ مذاکرات کی قیادت کرتے رہیں گے۔ فلسطینی ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ اپنی اس ذمے داری کی انجام دہی حماس کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کی ہدایت پر جاری رکھیں گے۔
ایک دوسرے با خبر ذریعے کے مطابق خلیل الحیا کو اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار دونوں کا اعتماد حاصل رہا ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ ’’توقع ہے کہ الحیا حماس کا سفارتی چہرہ ہونے کی بنیاد پر بلا واسطہ مذاکرات کی قیادت کرتے رہیں گے‘‘۔ مزید یہ توقع ہے کہ فلسطینی اراضی کے باہر سے حماس کی قیادت کرنے والے خلیل الحیا اور زاہر جبارین مستقبل میں اہم کردار ادا کریں گے کیوں کہ ان دونوں کا ایران اور حزب اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق ہے۔
حماس نے منگل کے روز یحییٰ السنوار کو تنظیم کے سیاسی دفتر کا نیا سربراہ چننے کا اعلان کیا تھا۔ یحییٰ السنوار 1998 سے حماس کا حصہ اور 23 سال اسرائیل کی جیل میں رہے۔ انہوں نے جیل ہی میں عبرانی زبان سیکھی اور ایک مضبوط مجاہد بن کر جیل سے نکالے گئے۔ ان کی رہائی کے ساتھ ہی ایک ہزار فلسطینیوں کو جیل رہائی ملی تھی۔ السنوار کو سات اکتوبر حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے اور اسرائیل دس ماہ سے ان کو گرفتار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ فلسطینی سیاست کے ماہرین یہ توقع کر رہے تھے کہ الحیا غالباً ہنیہ کے جاں نشین ہوں گے۔ اس کی وجہ الحیا کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جو حماس کا مرکزی سپورٹر ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے زیر نگرانی کام کرتے ہوئے خلیل الحیا ثالثی فریقوں کے توسط سے اسرائیل کے ساتھ بات چیت کرنے والے وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ بات چیت کا مقصد غزہ میں فائر بندی اور سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں قیدی بننے والے اسرائیلیوں کے اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینیوں کے ساتھ تبادلے کا معاہدہ کرنا ہے۔ الحیا غزہ میں حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ ہیں اگرچہ وہ فلسطینی اراضی سے باہر قطر میں رہتے ہوئے کئی برس سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ با خبر ذرائع کے مطابق بیرون ملک میں مقیم حماس کی قیادت اور غزہ کی پٹی میں یحییٰ السنوار کے درمیان پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ یہ پیغامات پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اس اعلان کے فوری بعد غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حال ہی میں اسرائیلیوں کے ایک مذہبی گروپ کو سرخ بچھیا (Red Heifer) کی قربانی سے قبل ان سے مشابہت رکھنے والی ایک گائے کی قربانی کی رسم ادا
کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس قربانی کا مقصد مسجد ِ اقصیٰ کی جگہ پر ایک نئے یہودی ہیکل کی دوبارہ تعمیر کا اعلان کرنا ہے۔ یہودی روایت کے مطابق ایک سرخ گائے کی قربانی کے بعد ہی یروشلم میں ٹمپل ماؤنٹ پر تیسرا ہیکل اس جگہ دوبارہ تعمیر ہو سکے گا، جہاں آج مسجد ِ اقصیٰ اور ڈوم آف دی راک قائم ہے۔ اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے 2022ء میں 5 بے عیب اور بے داغ سرخ بچھیائیں ٹیکساس کے ایک کھیت سے اسرائیل لائی گئی تھیں۔ جن کی قیمت اربوں ڈالر بتائی جارہی ہے۔ اب انہیں فلسطینی شہر نابلس کے قریب ایک غیر قانونی اسرائیلی بستی شیلو میں رکھا گیا تھا، جنہیں صحیح وقت آنے پر مخصوص قربان گاہ میں جلا کر قربان کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یہ قربان گاہ زیتون کے پہاڑ کے سامنے ہے جہاں ایک وقت میں دوسرا ہیکل موجود تھا، وہاں دوسرے ہیکل کی تعمیر کے لیے یکے بعد دیگر ان گائیوں کو جلا کر ان کو قربان کیا جائے گا۔ گائے کی قربانی سے قبل اسرائیلیوں کے ایک مذہبی گروپ کو سرخ گائے سے مشابہت رکھنے والی ایک گائے کی قربانی دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
لیکن اس پوری صورتحال میں ابو ابراہیم کے نام سے معروف 62 سالہ یحییٰ السنوار دو دہائی سے زیادہ عرصے تک اپنی زندگی کا حصہ صہیونی دہشت گردوں کی جیل میں گزار چکے ہیں۔ صہیونی حکومت نے انہیں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنانے کے علاوہ پچیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ صہیونی حکومت یحییٰ السنوار کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کا ماسٹر مائنڈ سمجھتا ہے۔ صہیونی حکومت نے انہیں پچھلے دس برسوں میں شہید کرنے کی لاکھ ناکام کوشش کی۔ غزہ میں ان کا انتخاب اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ فلسطینی مجاہدین کی قیادت کررہے ہیں۔