راکھ کے ڈھیر کا خوف

453

اقبال نے کسی زمانے میں مسلمانوں کو ’’راکھ کا ڈھیر‘‘ کہا تھا۔ دنیا بدل گئی، زمانہ بدل گیا مگر مسلمانوں کی اس حیثیت میں فرق نہیں آیا۔ چنانچہ دنیا انہیں آج بھی راکھ کا ڈھیر سمجھتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح پیش آ رہی ہے جس طرح راکھ کے ڈھیر کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ خود مسلمانوں کا بھی اب تک اپنے بارے میں یہی خیال ہے۔ ’’ورجینیا وولف سے کون خوفزدہ ہے؟‘‘ کے مصداق اس حال میں مسلمانوں سے کون خوفزدہ ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کے باوجود دُنیا کے مختلف کونوں سے عجیب و غریب خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔

ایسی ہی ایک خبر کے مطابق اٹلی کے ایک ممتاز پادری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہمیں اٹلی اور پورے یورپ میں مسلمانوں کی آمد روک دینی چاہیے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ مستقبل میں یورپ کے لوگ اگر عیسائیت کی جانب نہ پلٹے تو وہ یقینا اسلام کی جانب مائل ہوں گے۔ پھر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مسلمان مقامی معاشرے میں جذب نہیں ہوتے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں شرح پیدائش زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اتفاق سے مذکورہ پادری کوئی عام قادری پادری نہیں بلکہ ان کے بارے میں خیال ہے کہ موقع آتا تو وہ پوپ جان پال دوم کی جگہ لے لیتے۔

ہم اس نوعیت کی خبریں پڑھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ مسلمانوں کی پوزیشن اور اہمیت سے سبھی واقف ہیں سوائے مسلمانوں کے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہیں: ایک وجہ تو یہی ہے کہ مسلمان ابھی تک نو آبادیاتی تجربے کی گرفت میں ہیں۔ غلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عادت بن جاتی ہے۔ چنانچہ غلامی ختم ہو جاتی ہے مگر عادت باقی رہتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان مغرب کے سحر میں مبتلا ہیں اور اگر کہیں سحر سے آزاد بھی ہو گئے ہیں تو انہیں مغرب کے سلسلے میں احساس کمتری مارے دے رہا ہے۔ اس وقت ترقی، کامیابی اور کامرانی کے جو پیمانے مروَّج ہیں وہ سب کے سب مغربی ہیں اور مسلمان ان پیمانوں کی رو سے کچھ بھی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو رہ رہ کر ان باتوں کا خیال آتا رہتا ہے اور ان کا احساس کمتری کی بڑھتا رہتا ہے۔ مغرب فلاں میدان میں ہم سے پچاس سال آگے ہے، فلاں شعبے میں سو سال آگے ہے، فلاں دائرے میں اس کے اور ہمارے درمیان ڈیڑھ سو سال کی مسافت کا فرق ہے۔ مسلمان سوچتے ہیں کہ یا اللہ یہ فرق کیسے کم ہوگا؟ انہیں خیال آتا ہے کہ یہ فرق دائمی ہے۔ اس مسئلے کا ایک آسان حل موجود ہے، یہ حل پیمانوں کی تبدیلی ہے۔ پیمانے تبدیل ہو جائیں تو مسلمان احساسِ کمتری سے دیکھتے ہی دیکھتے نجات حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ کام کون کرے؟ علما کو تفرقے بازی اور مسلم دانشوروں کو خود پسندی اور ہنگامیت پرستی سے فرصت کہاں؟ پھر مسلمانوں کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ ریاست پر کچھ زیادہ ہی انحصار کرتے ہیں اور ریاستوں کا حال یہ ہے کہ ان کی باگ ڈور اس حلقے کے ہاتھ میں ہے جو بہر حال مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے ساتھ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود دنیا مسلمانوں سے خوفزدہ ہے، انہیں راکھ کا ڈھیر ڈراتا رہتا ہے، ایسا کیوں ہے؟

یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ مسلمان دنیاوی اعتبار ہی سے نہیں، دینی اعتبار سے بھی خستہ حالی میں ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت نا گفتہ بہ ہے، وہ دین پر عامل بھی نہیں ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی عظیم اکثریت میں ابھی ایک برائی نہیں آئی اور وہ یہ کہ بے شک مسلمان اپنے دین کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود وہ اصول بدلنے پر آمادہ نہیں، مسلمان نماز نہیں پڑھتے لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ اب نماز نہیں پڑھنی چاہیے یا یہ کہ نماز میں کوئی ردو بدل ہو جانا چاہیے۔ مسلمان سود لیتے ہیں لیکن وہ سود لینے کو برا سمجھتے ہیں۔ اصول واضح ہوں اور ان کے سلسلے میں کوئی انحرافی رویہ موجود نہ ہو تو ان سے وابستگی کا امکان ہر وقت موجود ہے۔ یہ بات اہل مغرب ہی نہیں اہل مشرق کو بھی تشویش میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہے۔

پھر مسلمانوں کی آبادی اور ان کی جغرافیائی وسعت ایک بڑا مسئلہ ہے، ان کے پاس نام نہاد سہی پچاس سے زیادہ آزاد ریاستیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نظامِ کہن اپنے تمام امکانات پورے کرچکا اور مسلم ملکوں پر مسلط حکمران طبقے کے تمام انڈے گندے ثابت ہو چکے ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں انڈو نیشیا کا حال بھی یہی ہے، ترکی کی صورت حال بھی یہی ہے، تیونس اور الجزائر کا قصہ بھی یہی ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے تعلق کی نوعیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتی چلی گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ متشرقین شعوری طور پر یا محض اپنے جہل کے اظہار کے طور پر قرآن مجید کے غلط ترجمے کرتے تھے اور قرآن کی آیات کی من مانی تاویلات کی جاتی تھیں۔ مگر فی زمانہ یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔ لاکھوں مسلمان مغرب میں جابسے ہیں، ان میں سے بہت سے حساس اور باشعور ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں پر حملوں کا جواب دیتے ہیں۔ دوسری جانب خود اہل مغرب میں ایسے لوگ سامنے آ رہے ہیں جو تہذیبوں کے درمیان کھڑکیاں اور دروازے کھولنے اور مکالمے کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ کام یقینا نیک نیتی اور خلوص ہی سے ہو رہا ہوگا لیکن اس میں ایک سیاسی حکمت عملی کا بھی دخل ہے۔ تاہم اس کے برعکس ایسی خبریں بھی تواتر کے ساتھ آتی رہتی ہیں کہ مسلمانوں کی آمد روک دو، انہیں مقامی معاشرے میں جذب کر لو۔ ایسی خبریں اہل مغرب کے شدید داخلی خوف کی آئینہ دار ہیں اور یہ خوف اس حقیقت کے ادراک سے پیدا ہو رہا ہے کہ اسلام اور مسلمان قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔