ہنیہ کی شہادت

401

فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ اپنے محافظ سمیت تہران میں واقع ایک عمارت میں موجود تھے جو ایرانی پاسداران انقلاب کے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتی ہے، اسرائیل نے رات گئے اِس عمارت پر میزائل داغ کر حماس کے سربراہ کو شہید کر دیا۔ واضح رہے کہ اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔ دنیا کے کئی ممالک نے اِس واقعے کی پُرزور انداز میں مذمت کی اور بیانات جاری کیے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اِس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے مہمان کو اُن کے گھر میں شہید کر کے اسرائیل نے اپنے لیے سخت سزا کی بنیاد فراہم کی ہے، اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران کا فرض ہے۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ایران اپنی علاقائی سالمیت اور وقار کا دفاع کرے گا، وہ نہ صرف دہشت گرد قابضین کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بزدلانہ عمل پر پچھتانے پر مجبور کردے گا بلکہ اپنی سرزمین اور عزت کا دفاع کرے گا جبکہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت پہلے سے زیادہ تیز ہو گی۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی اِس قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اِسے خطرناک پیش رفت قرار دیا۔ حماس رہنماء موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔

قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اِس خدشے کا اظہار کیا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے غزہ جنگ بندی کے مذاکرات کو خطرہ پہنچ سکتا ہے، بات چیت کے دوران سیاسی قتل اور غزہ میں شہریوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایک فریق دوسری طرف کے مذاکرات کار کو قتل کردے تو ثالثی کیسے کامیاب ہوسکتی ہے، اَمن کے لیے سنجیدہ شراکت داروں کی ضرورت ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ غزہ کو مزید تصادم اور جھڑپوں سے بچانے کے لیے جلد از جلد مستقل جنگ بندی ہونی چاہیے۔ ملائیشیا نے اِس قتل کی فوری اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جو بھی اِس کے ذمہ دار ہیں اُنہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ نے اِسے ناقابل ِ قبول سیاسی قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان نے بھی اِس واقعے کی پُرزور مذمت کی۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کا جواب نہیں دیتے تاہم اِس کے وزیر ثقافت نے سوشل میڈیا پر عبرانی زبان میں انتہائی سفاکانہ الفاظ میں لکھا کہ دنیا کو گندگی سے پاک کرنے کا یہی درست طریقہ ہے،’’امن یا ہتھیار ڈالنے‘‘ کے مزید معاہدے نہیں ہوں گے، اِن لوگوں سے آہنی ہاتھ سے نبٹنے سے ہی اَمن آئے گا اور اَمن کی خواہش رکھنے والوں کو سکون اور تقویت ملے گی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ کی موت میں امریکا ملوث نہیں، اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے دنیا کے بیش تر ممالک کو نہ صرف صدمے سے دوچار کیا ہے بلکہ بعض نے اسرائیلی حملے کو جنگ بندی کی کوششوں کو سبو تاژ کرنے کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔ اسرائیلی ریاست اِس وقت اپنے خلاف اُٹھنے والی مزاحمت کی ہر تحریک کو کچلنے بلکہ تباہ کر دینے کے در پے ہے۔ اِس کی دہشت گردانہ کارروائیاں مشرقِ وسطیٰ کو افراتفری کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔ اِس قتل سے قبل متعدد بار اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ بال بال بچ جاتے تھے۔ رواں سال اپریل میں اُن کے تین بیٹے اور پوتے پوتیوں کو غزہ میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اُس وقت مار دیا گیا تھا جب وہ رمضان کے اختتام پر مغربی غزہ میں الشاتی نامی مہاجر کیمپ کی جانب ایک کار میں سفر کر رہے تھے۔ اب تک اُن کی بہن، بیٹوں، پوتوں اور پوتیوں سمیت خاندان کے 70 افراد کو شہید کیا جا چکا ہے لیکن اِس کے باوجود اُن کے اندار اسرائیلی جارحیت کے خلاف آزادی کی جوت مکمل تابانی سے روشن تھی۔

اسماعیل ہنیہ نے فلسطینی وزیراعظم کے طور پر 2012ء سے 2013ء تک فرائض سر انجام دیے۔ وہ دنیا بھر میں اسرائیلی درندگی کے خلاف جارحیت کا استعارہ سمجھے جاتے تھے، کئی بار گرفتار بھی ہوئے، 1989ء میں اسرائیل نے اُنہیں تین سال تک پابند ِ سلاسل رکھا اور 1992ء میں اُنہیں حماس کے متعدد سرکردہ رہنماؤں کے ہمراہ جلاوطن کر دیا۔
اُنہیں 2006ء میں غزہ میں حماس کا رہنماء نامزد کیا گیا، اِسی سال اُنہوں نے مختصر وقت کے لیے فلسطینی اتحادی حکومت کے وزیراعظم کے طور پر خدمات سرانجام دیں تاہم فلسطینی دھڑوں کے درمیان مسلح تصادم اور کئی ماہ تک چلنے والی کشیدگی کے بعد وہ حکومت تحلیل کر دی گئی تھی۔ اُنہوں نے 2017ء میں حماس کی سرابراہی کا اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالا، اِن دنوں وہ جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ گزشتہ دِنوں فلسطین کے رہنماؤں کے ہمراہ چین میں ہونے والے بیجنگ معاہدے میں شریک ہوئے تھے، شہادت سے قبل وہ قطر میں مقیم تھے۔ بین الاقوامی جنگی ماہرین نے آئندہ دِنوں میں خطے میں مکمل جنگ کے خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف براہِ راست ردعمل کی ایک مربوط علاقائی مہم شروع ہونے کا قوی امکان ہے، اِس میں عراق، یمن اور لبنان کے علاوہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا بھی شامل ہو سکتی ہیں جس سے نہ صرف خطے اور غزہ جنگ میں شدت آنے کا خدشہ ہے بلکہ ایران، سعودی عرب اور مصر بھی اِس صورتحال سے متاثر ہو سکتے ہیں۔