انسان فطر ی طور پر ہر مشکل وقت میںگھر واپس آنے کو غنیمت جانتا اور فوری طور پر وہ گھر واپس آجاتا ہے۔ شیخ حسینہ بتاتی ہیں کہ ان کی سیاسی زندگی کے آغاز میں ان گھر پر ’’اگر تلہ سازش‘‘ کے حوالے سے میٹنگ ہوتی تھی اور وہ ان اجلاسوں میں شریک پاکستان کے غداروں کی میزبانی کرتی تھیں اور ان کو چائے اور کھانا بھی پہنچانے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیتی تھیں۔ اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔ اے ایف پی کی اطلاع یہ ہے کہ پانچ اگست کو شیخ حسینہ واجد مستعفی ہو کر ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔ ان کا ہیلی کاپٹر بھارت میں پہلے بھارتی فوجی اڈے ’’اگر تلہ‘‘ پہنچا جہاں ان کا استقبال ان کے بھائی اور محسن بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نے کیا اور وہ ان سے گلے لگ کر اپنے اقتدار کے چھن جانے کی داستان سناتی رہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ اگر اجیت دووال 5 اگست کو شیخ حسینہ کی بروقت مدد نہ کرتے تو شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنے والد کی طرح موت کی آغوش میں چلی جاتیں اور شاید اپنے والد کی طرح ان کی لاش کو کوئی تین دن تک اُٹھانے والا نصیب نہیں ہوتا۔
ان کے اقتدار کے خاتمے میں طلبہ تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔ 22 جولائی 2024 کو بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں کوٹا سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ نے شیخ حسینہ کا سورج مشرق میں ہمیشہ کے غروب کر دیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ بھارت نے شیخ حسینہ کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا اور ان کی بیٹی صائمہ جو ڈبلیو ایچ او میں ملازم ہیں نے اپنی والدہ کو برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دی ہے۔ شیخ حسینہ کی بہن شیخ ریحانہ کی بیٹی برطانیہ میں ہاؤس آف کامن کی رکن ہیں اور وہ بھی شیخ حسینہ کی سیاسی پناہ کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن برطانیہ میں موجود بنگلا دیشی برطانوی حکومت کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے شیخ حسینہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہندوستان میں ہی رہیں گی۔
بھارتی اخبار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حسینہ واجد کو بھارت کی جانب سے چوکنا کیا گیا تھا کہ بنگلادیشی آرمی چیف کا چین کی جانب جھکاؤ ہے، بھارتی نیشنل سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے جون 2023ء میں حسینہ واجد کو آگاہ کیا تھا۔ بھارتی اخبار کے مطابق بنگلادیشی آرمی چیف نے مظاہرین کو روکنے کے بجائے وزیراعظم کو الٹی میٹم دیا۔ اس کے علاوہ خالدہ ضیاء کی رہائی سے واضح ہے کہ اسلام پسند سیاست میں آگے آئیں گے۔ ایک خبر یہ بھی پھیلائی جاری رہی ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ شیخ حسینہ نے امریکا کے کہنے پر خطے میں ایک کرسچن ریاست کے قیام کا بھانڈا بھوڑدیا تھا اور یہ سب کچھ امریکی سی آئی اے نے کیا ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان کا نام تو خود شیخ حسینہ نے لیا تھا۔ اس سلسلے میں جب بھارتی صحافی سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا نام تو ہمیشہ وغیرہ وغیرہ میں آہی جاتا ہے۔ دوسری جانب برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے بنگلادیش کے حالات کا اقوام متحدہ کے تحت تحقیقات کرانے کا مطالبہ کردیا۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ بنگلادیشی عوام اقوام متحدہ کے زیر ِ قیادت مکمل اور آزاد تحقیقات کے مستحق ہیں، برطانیہ بنگلادیش کا پْرامن اور جمہوری مستقبل یقینی بنانے کے لیے اقدامات دیکھنا چاہتا ہے۔ فوری طور پر بنگلادیشی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں آرمی چیف کی جانب سے کی گئی ہیں۔
بنگلا دیش میں 18 جولائی تک طلبہ احتجاج اتنی شدت اختیار کر چکا تھا کہ حکومت نے اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی لیکن ناہید اسلام اور ان کے ساتھیوں نے اپنی احتجاجی تحریک کو متحرک رکھا۔ احتجاج کے دوران اموات پر بنگلا دیش کی حکومت نے 31 جولائی کو ’یوم سوگ‘ منانے کا اعلان بھی کیا لیکن طلبہ نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے مطالبات میں یہ بھی شامل کر لیا کہ جو ان اموات کے ذمے دار ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ چار جولائی کا دن بنگلا دیش میں سب سے پرتشدد رہا، جب ایک ہی دن میں جھڑپوں کے دوران لگ بھگ 100 افراد کی جان گئی، جس کے بعد طلبہ نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کے لیے دباؤ بڑھا دیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ناہید اسلام اور ان کے ساتھی طالب علم پس منظر میں نہیں گئے بلکہ وہ اب بھی ملک میں جلد عبوری حکومت کے قیام کے لیے متحرک ہیں اور منگل کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں انہوں نے عبوری حکومت کے لیے نام بھی تجویز کیا۔ شیخ حسینہ ان کے دو بچے ہیں، ان کا بیٹا سجیب واجد بھی ان کی برطرفی میں اہم کردار کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اب کچھ گفتگو ’’اگرتلہ سازش کیس‘‘ کا بھی ہو جائے جس کا ذکر اُوپر کر چکا ہوں جس کا 6 جنوری 1968ء کو جس کا انکشاف ہوا تھا۔ صدر جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں پہلی بار سرکاری طور پر بتایا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کی ایک سازش پکڑی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس سازش کے سرغنہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان تھے جنہوں نے بھارتی فوجی اڈے اگر تلہ کے مقام پر اعلیٰ بھارتی حکام سے ملاقات کی تھی جی ہاں یہ وہی فوجی اڈہ ہے جہاں 5 اگست 2024ء کو قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے شیخ حسینہ کا استقبال کیا ہے۔ اس سازش کے مطابق بھارتی حکومت عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کو مالی اور مادی امداد کے علاوہ فوجی ٹریننگ کے ساتھ مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت سے ایک آزاد ریاست بنگلا دیش بنانے کا منصوبہ تھا۔ اس سلسلے میں پندرہ سو سے زائد بنگالیوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سول اور ملٹری افراد شامل تھے۔
اس کیس میں شیخ مجیب الرحمان سمیت تین درجن افراد پر غداری کا مقدمہ چلا تھا لیکن ایوب حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک کے خاتمے کے لیے منعقدہ گول میز کانفرنس کے شرکاء کے مطالبہ پر 22 فروری 1969ء کو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ یہ وہ غلطی تھی جس کی وجہ سے پاکستان سے بنگلا دیش الگ ہوا یا کیا گیا تھا؟
اس سازش کو افسانہ کہا جا تا رہا ہے لیکن یہی سازش 1971ء میں مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی کے بعد حقیقت بن کر سامنے آگئی تھی۔ اس کیس میں ملوث ایک ملزم، بنگلا دیشی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر شوکت علی نے 22 فروری 2011ء کو اعتراف کیا تھا کہ یہ کیس ایک سیاسی الزام نہیں بلکہ ایک اٹل حقیقت تھی اور تمام تر الزامات جو مجیب الرحمان پر لگائے گئے تھے درست تھے۔ بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب کے پاکستان سے علٰیحدگی کے لیے بھارت سے روابط 1963ء سے بتائے جاتے تھے۔ یہی وہ آگر تلہ ہے جہاں مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ پہنچائی گئیں تاکہ ان کو یاد آسکے یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے بابا جہاں سے اور بس؟ مجیب، شیخ حسینہ کا سفر اگر تلہ سازش کیس سے شروع ہوکر وہیں ختم ہو گیا۔