جنوبی ایشیا کے تین چار ملکوں میں خاندانی سیاست کا راج ہے اور اس راج اور رواج کو بہت فخریہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس رواج کے پردے میں چند ہی خاندان باریاں بدل کر عوام کے مقدر کے مختارِکل بنتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد عوام کی شعور اور آگہی کی سطح بلند ہونے کے ساتھ اس روایتی نظام کے خلاف عوام میں بغاوت کے جذبات نمایاں طور پر مچلتے نظر آرہے ہیں۔ سری لنکا میں عوامی جذبات کا لاوا ایک دھماکے سے پھٹ گیا تھا اور وہاں حکمران خاندان تخت وتاج سمیت عوامی انقلاب کی لہروں میں بہہ گیا تھا۔ یہاں تک سر ی لنکا کے عوام نے بھی حکمرانوں کو بھگا کر ایوان صدر میں جشن منایا تھا۔ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے کابل کے صدارتی محل میں یہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔ مالدیپ میں عوام نے انتخابات کے ذریعے اپنے جذبات اور غصے کا اظہار کرکے بھارت نواز حکومت کو رخصت کر دیا تھا۔ اب بنگلا دیش میں عوامی انقلاب کی تندی اور تیزی نے ایک زمانے کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ بنگلا دیش میں ملک کی بانی جماعت اور خاندان کے ساتھ تو جو ہوا مدتوں یاد رہے گا۔ بنگلا دیش کے انقلاب کے بعد ایک انجانے خوف کے سائے اس خطے کے دوسرے ملکوں میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ عوامی کی طاقت کا خوف طاقتوروں کے تحت الشعور سے جھلکتا دکھائی دینے لگا ہے۔ عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکنے اور انہیں غم روزگار میں مبتلا رکھ کر اپنی دنیاؤں کو حسین اور جنت بنانے والے حکمران طبقات کو عوام غیظ وغضب کے مظاہروں نے چونکا دیا ہے۔ اسی لیے بھارت اور پاکستان جیسے ملکوں میں بھی یہ آوازیں اْٹھنے لگی ہیں کہ ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے مناظر دہلی اور اسلام آباد میں دہرائے جا سکتے ہیں؟۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن دھرنا دیے ہوئے ہیں اور وہ اپنے حکمران طبقات کو بار بار بنگلا دیش کے حالات کا حوالہ دے کر متنبہ کر رہے ہیں۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر پہلے سری لنکا جیسے خدشات کا اظہار کرتے تھے اب انہیں پاکستان کی فضاؤں میں بنگلا دیش جیسے حالات کے سائے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کا کنٹرولڈ میڈیا بھی دھیمے سْروں میں اس پر بات کر رہا ہے کہ کیا بنگلا دیش جیسے حالات پاکستان میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے حالات میں نوے فی صد مطابقت ہے۔ جذبات اور حالات کے پریشر ککر پر ویٹ پوری طاقت سے لگا ہوا ہے۔ دوسال سے ملک ایک سیاسی آویزش اور معاشی تنزل کا شکار ہے۔ عوامی رائے کو جانچنے اور پریشر ککر سے باہر آنے کا واحد سامان انتخابات تھے مگر انتخابات میں جو ہوا اس نے جذبات اور غصے کو مزید بڑھا دیا۔ عوام نے ووٹ کسی کو دیا اور جیت کا پروانہ کسی اور کے نام نکل آیا۔ ملک نہ سیاسی بھنور سے باہر نکل رہا ہے نہ معاشی گراوٹ کے گہرائی سے واپس لوٹ رہا ہے۔ یوں حالات ایک نقطہ کھولاؤ پر ٹھیر کر رہ گئے ہیں۔ حالات واقعات اور جنریشنز کی تبدیلی کے بعد عوامی سوچ کے زاویے بھی بدلتے ہیں۔ روایتی حکمرانوں کی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ وہ تبدیلی اور نئی سوچ سے خوف محسوس کرتے ہیں اس خوف کو پھر طرح طرح کے نام دیے جاتے ہیں۔ عوام کو اس سوچ سے دور رکھنے کے لیے مضحکہ خیز اصطلاحات گھڑی جاتی ہیں جن میں ایک ڈیجیٹل دہشت گردی بھی ہے۔
جب سے سوشل میڈیا آیا ہے اور نئی نسل اس ہتھیار سے لیس ہوئی ہے تو جنوبی ایشیا میں ایک مکمل بیداری کی لہر آنا باقی ہے۔ یہ لہر کامیاب ہوتی ہے یا ناکام یہ الگ بات ہے۔ عرب بہار کے نام پر عالم عرب میں جو لہر اْٹھی اسی جدیدیت کا کمال تھا۔ یہ الگ بات کہ اکثر عرب ملکوں میں عوامی جذبات کا استحصال ہوا اور تبدیلی کی لہریں بے نتیجہ ہی گزر گئیں۔ مصر میں جمہوری دور کا آغاز ہوا مگر یہ فراعین کی سرزمین پر جمہوریت کا یہ سورج بھی صرف ایک سال ہی اپنی ضوفشانی دکھا سکا اور ملک ایک بار پھر شخصی آمریت کی گود میں چلا گیا۔ جنوبی ایشیائی ملکوں میں عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے والے حالات اور اسباب موجود ہیں۔ اسی لیے بنگلا دیش جیسے حالات کے انجانے خوف کے سائے محسوس کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی بنگلا دیش کے حالات کچھ اس انداز سے اپنے مرتب کررہے ہیں کہ لوگ لمحہ بھر کو ٹھیر کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کہیں ایسے حالات بھارت میں تو پیدا نہیں ہوں گے۔ کانگریس کے راہنما اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت میں بھی بنگلا دیش جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ سلمان خورشید نے ایک ماہر تعلیم مجیب الرحمان کی کتاب ’’شکوۂ ہند۔ ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی مستقبل‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کشمیر میں سب کچھ ٹھیک نظر آرہا ہے۔ دہلی میں سب کچھ ٹھیک نظر آرہا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سطح کے نئے کچھ ہے۔ آج جو حالات بنگلا دیش کے ہیں بھارت میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسی دوران کانگریسی لیڈر سجن ورما نے کھل کر کہا آج جو کچھ حسینہ واجد کے ساتھ ہوا کل کو مودی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ مودی جی یاد رکھیں آج سڑکوں پر احتجاج کرنے والے لوگ آپ کے پی ایم ہاؤس میں بھی گھسیں گے۔ یہی نہیں ایک اور مقام پر شیو سینا کے سربراہ اور مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے بھی کہا کہ شیخ حسینہ کی بے دخلی پوری دنیا کے لیے پیغام ہے کہ عوام سب سے اہم ہوتے ہیں اور اہل اقتدار کو ان کے صبر کا امتحان نہیں لینا چاہیے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ہندوستان میں بھی بنگلا دیش والی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے تو ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ عوام کی عدالت کیا کر سکتی ہے یہ بنگلا دیش میں دیکھا گیا۔ عوام کی عدالت سب سے اہم ہوتی ہے۔ بنگلا دیش کی صورت حال سب کے لیے وارننگ ہے کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ بھگوان ہے۔ اس طرح بنگلا دیش کے حالات نے بھارت جیسے ملک میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
مودی نے بھارت کی معیشت کو اسی طرح سنبھالا دیا ہے کہ جس طرح شیخ حسینہ نے بنگلا دیش کی معیشت کو زمین سے اْٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا تھا مگر ایک موقع ایسا آیا جب اس بھرپور مادی ترقی کے باوجود فرد کے لیے اظہار رائے، اظہار ذات اور شخصی آزادی اور گھٹن سے آزاد ماحول زیادہ اہم ٹھیرا۔ جب سب راستے بند ہوگئے تو پانی ایسی جگہ سے پھوٹ پڑا جہاں کا تصور بھی محال تھا۔ اسمارٹ فونز والی جنریشن حالات کو بدلنے کے لیے میدان میں نکل آئی اور حالات کو بدلے بغیر گھروں کو نہیں لوٹی۔ اس لیے بھارت کو مادی ترقی دینے والے مودی کو انسانی جبلت اور نفسیات کا احساس شاید نہیں تھا مگر بنگلا دیش کے حالات نے اس کے لیے سوچ کا ایک نیا دریچہ کھول دیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے تو اس ملک کے عوام اور ملک کی ترقی کے لیے کچھ کیا ہی نہیں۔ عوام اور حکمران اشرافیہ کے درمیان میلوں کا فاصلہ ہے۔ حکمران مریخ کے باسی ہیں اور عوام زمین پر رینگتی ہوئی مخلوق۔ ان سارے حالات کے تناظر میں حکمران طبقات کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تبدیلی اور انقلاب کا سائیکلون ابھی جنوبی ایشیا میں زیر گردش ہے۔ یہ وقفے وقفے سے ہر دروازے پر دستک د ے رہا ہے۔ اس سے پہلے حالات کو سنبھالنے کی تدابیر کرنا لازمی ہے۔