عدالت عظمیٰ کا فیصلہ: تمام مکاتب ِ فکر کا متفقہ موقف

398

حصہ اوّل
پس منظر: چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ نے مبارک ثانی پٹیشن نمبر 1054-Lof2023 کا فیصلہ 6 فروری 2024 کو جاری کیا، اس پر پاکستان بھر کے دینی حلقوں میں شدید اضطراب پیدا ہوا، اس کے نتیجے میں عدالت عظمیٰ میں نظر ِ ثانی فوجداری پٹیشن نمبر: 2 of 2024 دائر ہوئی اور اس میں معزز عدالت نے دیگر کے علاوہ مندرجہ ذیل پانچ اداروں سے بھی رائے مانگی، وہ ادارے یہ ہیں: (۱) جامعہ دارالعلوم کراچی، (۲) دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کراچی، (۳) جامعہ سلفیہ فیصل آباد، (۴) قرآن اکیڈمی لاہور، (۵) جامعہ امدادیہ فیصل آباد۔

ان اداروں نے مشترکہ موقف تحریری صورت میں اپنی اپنی مہر اور دستخطوں کے ساتھ پیش کیا اور اُسے نظر ثانی کے موقع پر علامہ سید حبیب الحق شاہ کاظمی نے عدالت میں پڑھ کر سنایا اور تمام مکاتب ِ فکر نے اس کی تائید کی۔ پھر فیصلے کو محفوظ کرلیا گیا تھا تاآنکہ 24 جولائی 2024 کو طویل انتظار کے بعد اس نظر ثانی پٹیشن کا فیصلہ اُسی سہ رکنی بنچ نے سنایا۔ اس میں اگرچہ بعض امور کو تسلیم کرلیا گیا، لیکن فیصلے میں ذو معنی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے مزید ابہامات پیدا ہوئے اور ان الفاظ کو کسی بھی طرف پھیرا جاسکتا ہے، ہماری رائے میں اس فیصلے میں قادیانیوں کے لیے تبلیغ کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ الغرض دینی حلقوں کا اضطراب بدستور قائم ہے اور اگر اس کا ازالہ نہ کیا گیا تو ملک وملت کے لیے خطرناک ہوگا۔

بعد کو عدالت عظمیٰ نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا، اس میں فیصلے سے اختلاف کو ’’فساد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، نہایت احترام کے ساتھ گزارش ہے: یہ فساد نہیں ہے، بلکہ ’’ردّالفساد‘‘ ہے، تین ججوں کی رائے کروڑوں مسلمانوں کی اجماعی رائے کو فاسد اور باطل قرار نہیں دے سکتی۔ کیونکہ اس طرف جذباتیت نہیں ہے، بلکہ اہل ِ علم کی بہت بڑی تعداد ہے، اس میں علماء کے علاوہ آئینی وقانونی ماہرین بھی شامل ہیں۔ عدالت نے نظر ِ ثانی فیصلہ اردو میں لکھا ہے، ہم اس کی تحسین کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں: قومی زبان کو عدالت کی کارروائی میں رائج کیا جائے، یہ آئین کا بھی تقاضا ہے اور اس کے بارے میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔

ہم نے فیصلے کو جذبات سے ماورا ہوکر ٹھنڈے دل سے پڑھا ہے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے، عجلت سے کام نہیں لیا، کیونکہ یہ انتہائی ذمہ دارانہ کام ہے اور اس کا تعلق جملہ اہل ِ ایمان کے عقیدے اور ایمان کے ساتھ ہے۔ اس کو عوام میں پزیرائی (Rating) کے لیے استعمال کرنا دیانت وامانت اور ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے۔ پس گزارش ہے: ہمارے موقف کو خالی الذہن ہوکر پڑھا اور سمجھا جائے۔

اگر یہ سوال کیا جائے: ’’مبارک ثانی کیس میں نظر ثانی پٹیشن کا مرحلہ بھی ختم ہوگیا ہے، لہٰذا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اب اس میں ردّوبدل نہیں ہوسکتا‘‘، اس کی بابت ہماری گزارش ہے: ’’دستورِ پاکستان کاآرٹیکل 188 کو اپنے کسی فیصلے یا حکم نامے پر نظر ثانی کا اختیار دیتا ہے، چنانچہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 188میں ہے:

The Supreme Court shall have power, subject to the provisions of any Act of (Majlis-e-Shoora (Parliament) and of any rules made by the
Supreme Court, to review any judgment pronounced or any order
made by it.

ترجمہ: ’’عدالت عظمیٰ کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے منظورکردہ کسی ایکٹ اور خود عدالت ِ عظمیٰ کے وضع کردہ کسی قاعدے کے تحت اپنے اعلان کردہ کسی فیصلے یا حکم نامے پر نظر ثانی کرسکتی ہے‘‘، اس اصول کی روشنی میں عدالت عظمیٰ پر لازم ہے:

’’اپنے نظرثانی شدہ فیصلے میں ازخود ترمیم کر کے مسلمانوں کے حقیقی خدشات کا ازالہ کرے یا مقدمے کے سارے فریقوں کو دعوت دے کہ ان کے نزدیک فیصلے میں کوئی سقم ہے یا صرفِ نظر یا غلطی ہوئی ہے، تو اُس کی نشاندہی کریں، اگر وہ حقائق وشواہد کی روشنی میں درست ہوئے، تو ان کا ازالہ کردیا جائے گا‘‘۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ قومی اسمبلی میں بھی زیر بحث آگیا ہے اور اسپیکر نے اسے کمیٹی کے سپرد کردیا ہے، لہٰذا اس فیصلے کے پیرا گراف 42 کو پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے: مجموعہ ٔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298-C کے شروع میں ترمیمی بل کے ذریعے ان الفاظ کا اضافہ کردیا جائے: ’’Notwithstanding any judgement of any court‘‘، ترجمہ: ’’کسی بھی عدالت کا کوئی بھی فیصلہ اس دفعہ پر اثر انداز نہیں ہوسکے گا‘‘۔

مسلّمہ اصول ہے: ’’کسی بھی ملک کا شہری، اُس ملک کے آئین وقانون کا پابند ہے اور اُسے آئین وقانون سے انحراف کا حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ پیدائشی شہری ہو یا اُس نے بعد کو اپنے اختیار سے اُس ملک کی شہریت اختیار کی ہو، جسے انگریزی میں ’’Natural Citizenship‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی اصول کے تحت قادیانی اس امر کے پابند ہیں کہ آئین ِ پاکستان کو مِن وعن تسلیم کرتے ہوئے اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں، اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دیں اور کسی بھی تاویل وتوجیہ کے تحت اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ نہ کریں‘‘۔

نہایت احترام کے ساتھ گزارش ہے: معزز عدالت نے قادیانیوں کو نہ اس امر کا پابند بنایا اور نہ اُن کو یہ تنبیہ کی کہ اُن کا اپنے آپ کو مسلمان قرار دینے کا اِدّعا (Claim) آئین سے انحراف اور بغاوت ہے اور اس کی سزا خود آئین میں موجود ہے، اگر عدالت اپنا یہ آئینی، قانونی اور دینی فریضہ انجام دیتی تو قادیانیوں کے لیے دَجل وفریب کے سارے راستے اور امکانات مسدود ہوجاتے۔

اس کے بغیر عدالت کے نظر ِ ثانی فیصلے کا پیرا گراف: 27 بے معنی ہوجاتا ہے، عدالت نے ’’ملت ِ اسلامیہ کا دو سو صفحات پر مشتمل موقف برائے مطالعہ خصوصی کمیٹی‘‘ کا حوالہ دیا اور قرارداد کا مندرجہ ذیل اقتباس نقل کیا ہے:

’’اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار، انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لیے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ’’ان کے جائز حقوق ومفادات‘‘ کے تحفظ کے لیے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں‘‘۔

پس گزارش ہے: ’’ان کے جائز حقوق ومفادات‘‘ کا تعیّن یا اُس کی بابت قانون سازی تو تب ہوسکتی ہے، جب وہ اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں، اپنے آپ کو غیر مسلم کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرائیں تو وہ قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے لیے مختص اقلیتی نشست کے حق دار بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن آج تک قادیانیوں نے اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کیا، پس جو شہری کسی ملک کے آئین کو ہی تسلیم نہ کریں، تو وہ اُس ملک میں ’’جائز حقوق ومفادات‘‘ کے حق دار نہیں بنتے، جبکہ پاکستان میں رہنے والے ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی وغیرہ سمیت غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق تین شرائط کے ساتھ متعین ہیں: (۱) قانون کی پابندی، (۲) امن عامّہ اور (۳) تابعِ اخلاق۔ اپنے معترضہ فیصلے میں عدالت نے قادیانیوں کے بارے میں بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی آئینی دفعات کا حوالہ دیا تھا، لیکن آئین سازوں نے اپنی اجتماعی دانش کے مطابق ان پر ’’قانون کی پابندی، امن ِ عامّہ اور تابع ِ اخلاق‘‘ ہونے کی جو بندش عائد کی تھی، اُسے عدالت نے حذف کردیا تھا، مگر نظر ثانی فیصلے میں اُسے تسلیم کرلیا ہے، ہم اس کی تحسین کرتے ہیں، سابق عدالتی فیصلے ہمارے اس موقف کی تائید کرتے ہیں، چنانچہ ہم نے انہی عدالتی فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’مذکورہ بالا اعلیٰ عدالتوں نے یہ حقیقت بھی واضح کردی ہے کہ آئین کی دفعہ 20 اور 22 میں غیر مسلموں کو جو مذہبی آزادی دی گئی ہے، وہ اُس صورت میں انہیں حاصل ہوگی، جب وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت مان کر اپنے مذہب پر عمل کریں، جیسے ہندو، سکھ اور مسیحی وغیرہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس قادیانیوں کا معاملہ الگ ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم ظاہر نہیں کرتے، اس لیے وہ اس آزادی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، چنانچہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے:

“But this can be allowed if the non-Muslims preach as non-Muslims and
not by passing off as Muslims.(PLD, 1985, FSC:117)”.

عدالت خود تسلیم کرچکی ہے: فاضل وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا اتباع عدالت عظمیٰ پر لازم ہے، اس لیے کوئی جواز نہیں تھا کہ نظر ِ ثانی میں کوئی بات کہتے وقت اس کو پیش ِ نظر نہ رکھا جاتا۔
(جاری ہے)