…اور کشتی ڈوب گئی

411

مرحوم محمد علی جناح کے سابق مشرقی پاکستان اور (بھٹو، یحییٰ اور) شیخ مجیب کے حالیہ بنگلا دیش کے ’’رجاکاروں‘‘ کا کایا پلٹ کارنامہ شاید انہونی تو نہیں ہے لیکن کسی حد تک دورِ حاضر کی سیاسی تاریخ کا ناقابل یقین واقعہ ضرور ہے۔ چند دن پہلے تک کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا تھا کہ سولہ سال سے بنگلا دیش پر مسلط ڈکٹیٹر شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کی کشتی چند لمحوں کے جوار بھاٹے میں چند ہچکولے کھا کر اچانک ڈوب جائے گی۔

کوٹا سسٹم جیسے ’’معمولی‘‘ سے مسئلے پر شروع ہونے والی طلبہ تحریک بنگلا دیش کے بانی کی پارٹی کے اقتدار کو چند دنوں میں لے ڈوبے گی کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ بنگلا دیش کا بانی شیخ مجیب عرصہ پہلے اپنے خاندان کے اکثر افراد سمیت بھارت نواز اور عوام دشمن پالیسیوں، تکبر اور غرور کا شکار ہوکر عوام کی نفرت کا نشانہ بنا تھا۔ سولہ سال تک اپنی مرضی کی افسر شاہی مرضی کے ججوں اور مرضی کے فوجیوں کے ذریعے آمریت کو سہارا دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط سمجھنے والی حسینہ اقربا پروری، کرپشن نا انصافیوں اور بھارت نوازی کی وجہ سے ذلت آمیز طریقے سے اپنے سرپرست بھارت فرار ہوگئی اور اس کے فرار کے ساتھ ہی شیخ مجیب خاندان کی ’’کشتی‘‘ عوام کے غیظ وغضب کے سمندر میں غرق ہوگئی۔ بنگلا دیش کا یہ عوامی انقلاب (جو ابھی ادھورا ہے) اپنے اندر بہت سارے سبق رکھتا ہے۔

پہلا سبق آمریت کے نشے میں بدمست حکمرانوں کے لیے ہے کہ اپنے اور اپنے خاندان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین، اپنی مرضی کے جج، اپنے غلام الیکشن کمیشن، اپنے وفادار انتظامی افسران اور اپنے جرنیل اقتدار کے طول یا مضبوطی کی ضمانت ہرگز نہیں ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ دنیا کا ہر آمر اپنے آپ کو طاقتور اور عقل مند ترین خیال کرتے ہوئے اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں جب تک کہ ریت اس کے پاؤں تلے سے سرک نہ جائے۔

بنگلا دیش کی تحریک میں سب سے بڑا سبق مافیاز کی سرپرست آمریتوں کے ستائے پاکستانی عوام کے لیے ہے کہ قربانی اور منظم موثر اور تیز تر تحریک کے بغیر پون صدی سے عوام کا خون چوسنے والے مافیاز سے نجات ممکن نہیں۔ اپنی آزادی ملک کی خوشحالی اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پوری قوت سے اٹھنا ہوگا ورنہ غلامی کی زنجیریں نہیں ٹوٹیں گی۔ حافظ نعیم الرحمن کی آواز بننے اور اس کے قدم سے قدم ملانے میں جتنی دیر کرو گے اتنا ہی نقصان اٹھاؤ گے۔ یاد رکھو حافظ نعیم اس وقت تم سے ووٹ نہیں مافیاز کے خلاف تمہارا تعاون مانگ رہا ہے۔ مافیائوں سے حافظ صاحب کی ذاتی لڑائی نہیں۔ وہ اس ملک کو معیشت کو عوام کو مافیائوں کے چنگل سے چھڑانے نکلا ہے۔

جس طرح رضاکاروں نے بنگلا بندھو اور اس کی متکبر بیٹی کی کرپٹ عوامی لیگ کی کشتی ڈبوئی ہے پاکستانی مافیائوں کی کشتیاں ڈبو دو۔ اٹھو اور حافظ نعیم کا ساتھ دو ورنہ ملک کے اقتدار پر مسلط فارم 47 کے یہ بے رحم گدھ تمہاری ہڈیوں کا بچا کھچا گوشت بھی نوچ لیں گے۔ یاد رکھو تم کمزور نہیں ہو۔ متحد ہو کر اٹھو گے تو زردار شریف مافیا کو جائے پناہ ڈھونڈنا اسی طرح مشکل ہوجائے گی جس طرح آج امریکا، برطانیہ سمیت کوئی ملک حسینہ کو پناہ دینے کو تیار نہیں۔ یہی وقت ہے کہ اپنے لیے نہیں تو اپنے بچوں کے لیے ہی سوچو۔

ربّ کا واضح اعلان ہے کہ: ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے‘‘۔ (الرعد: 11)