بی جے پی کا بیانیہ غیر مقبول ہوگیا ہے ،یہی شکست کی وجہ بنی

226

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) بی جے پی کابیانہ غیرمقبول ہوگیا، یہی شکست کی وجہ بنی‘ بھارت کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کا مفہوم کیا ہے؟ جسارت کے اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں‘ جنوب ایشیائی کے سفارتی امور کے ماہرین اور کشمیری رہنمائوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ بی جے پی کا بیانیہ اب بھارت میں غیر مقبول ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے عام انتخابات میں اسے ایک سو سے زاید نشستوں پر ماضی کے مقابلے میں شکست ہوئی اور اب ضمنی انتخاب میں بھی اسے شکست ہوئی ہے‘ وہ اب اسمبلی الیکشن سے بھاگ رہی ہے‘ وہاں لداخ جس کو ہمیشہ استعمال کرتے تھے‘ اس نشست پر پہلی بار ایک مسلمان کامیاب ہو کر لوک سبھا میں پہنچ گیا‘ اب ضمنی ہو یا جنرل الیکشن اس کے ستارے ماند پڑ رہے ہیں‘ جنوبی ایشیا کے سفارتی امور کے ماہر، قومی کشمیر کمیٹی کے سابق ڈی جی نسیم خالد نے کہا کہ بھارت ایک ایسی ریاست ہے جس میں بہت سی قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں‘ اگرچہ ماضی میں اقلیتوں نے وہاں مختلف شکلوں اور ادوار میں ہندوؤں کی اکثریت پر حکمرانی کی ہے‘ بی جی پی طاقت کے ذریعے انتقامی سیاست پر یقین رکھتی ہے‘ جسے ہندوآتہ کا نام دیا گیا‘ بھارت کی معتدل اکثریت اس نام نہاد فلسفہ کے خلاف ہے کیونکہ یہ دور گلوبلائیزیشن کا ہے‘ ترقی کا دھارا آگے جاتا ہے پیچھے نہیں‘آج ہندو ینگ جنریشن خود ان سے بیزار ہے۔ تجزیہ کار ڈاکٹر فاروق عادل نے کہا کہ مودی نے بھارت میں جبر کا نظام قائم کر رکھا تھا اور اپوزیشن کے خلاف پیسہ اور میڈیا کے علاوہ عدلیہ کو بھی استعمال کرتے رہے ہیں‘ ان کے خلاف کانگریس آئی نے بھارت میں رائے عامہ منظم کی اور عام انتخابات میں اس بیانیہ پر حصہ لیا کہ مودی کی وجہ سے سیکولر بھارت اور بھارتی آئین خطرے میں ہے‘ عوام نے کانگریس آئی کے اس بیانیے کو سپورٹ کیا اور ان کو ووٹ دیا یہی وجہ تھی کہ کانگریس آئی نے ماضی کے مقابلے میں اس بار بہت زیادہ نشستیں جیتی ہیں‘ مودی کو اگرچہ سادہ اکثریت ملی ہے لیکن اس بار اسے عوام میں مسلسل غیر مقبولیت کا بھی سامنا ہے اور اس کا اثر مزید کم ہوتا چلا جائے گا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر، سابق پارلیمنٹرین لیاقت بلوچ نے کہا کہ آج کے بیانیے پر مبنی دور میں پاکستان کو کشمیر پر اپنے موقف کی سچائی اور کشمیریوں کی حمایت کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہر سطح پر فعال سفارت کاری کو بروئے کار لا کر کشمیر پر اپنے موقف کو وسعت دینا چاہیے جس طرح بھارت میں نوجوان مودی سے بد ظن ہو رہے ہیں‘ اس کے مقابلے میں کشمیری حریت پسند تحریک کے لیے نوجوانوں کو باخبر کر کے ان کو بھی اس معاملے کی آگہی دینے کی کوششوں میں شامل کرنا چاہیے‘ یہ طریقہ کار بھارت کے اُس بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے جو مسئلہ کشمیر کو بھارت کے اندرونی معاملے کے طور پر پیش کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو حقیقت سے بہت کم کر کے بیان کرتا ہے چونکہ بھارت کے جبری طریقے اور بیانیے کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے پاکستان کی موثر بیانیہ سازی اور اس میں نوجوانوں کی شمولیت عالمی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں‘ مودی کے مقابلے کے لیے مسئلہ کشمیر پر مستقل اور فعال بین الاقوامی سفارت کاری کی ضرورت ہے ‘بھارت کی خود ساختہ جمہوریت کو ”سب سے بڑا جھوٹ” قرار دیا جانا بہت ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے اندرونی اقتصادی اور عسکری استحکام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد اور لچک بہت ضروری ہے‘ بنگلا دیش، پاکستان، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک کو فوری طور پر بھارتی بالادستی سے آزاد سفارتی، تجارتی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعلقات مضبوط کرنے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے‘جنوبی ایشیا میں ہندوتوا، بھارتی دہشت گردی سے آزاد سفارتی، سیاسی، معاشی تعلقات کا نادر موقع ہے‘ نریندر مودی نے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 اور 35-اے ختم کرکے کشمیریوں کے رہے سہے حقوق بھی چھین لیے‘ مقبوضہ کشمیر مکمل فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا ہے‘ بھارتی عوام نے بھی انتخابات کے موقع پر مودی سرکار کو عملاً مسترد کردیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس (علی گیلانی) کے رہنما محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ بی جے پی، ہندواتوا کے جنون کی آگ جلانے کے بعد 2013ء سے آگے آگے چھلانگیں لگاتی گئی لیکن وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو زخمی کرتی رہی اور ریاست جموں وکشمیر کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اور ضم کرکے یو نٹی بنا دیا گیا لیکن وہ اقتصادی میدان میں ناکام ہوگئی اور ملک میں بے چینی بڑھتی گئی اور ہمسایہ ملکوں میں بھی اس کی ساکھ گرنے لگی‘ عالمی تنازعات میں بھی اس کا اثر گھٹ گیا‘ بے روزگاری نے سنگین صورت حال پیدا کی ہے اس لیے انتخابات کے نتائج میں وہ ناکامیوں کی زد میں آرہی ہے‘ اب بنگلا دیش میں حیران کن تبدیلی بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی‘ جموں و کشمیر میں بھی اس کی پالیسیاں ناکام ہو رہی ہیں‘وہ اب اسمبلی الیکشن سے بھاگ رہی ہے‘ وہاں لداخ جس کو ہمیشہ استعمال کرتے تھے‘ اس نشست پر پہلی بار ایک مسلمان کامیاب ہو کر لوک سبھا میں پہنچ گیا‘ اب ضمنی ہو یا جنرل الیکشن اس کے ستارے ماند پڑ رہے ہیں۔