کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجدمطلق العنان حکمران تھیں،ان کی حکومت ایک بہت سخت گیر، متشدد پولیس اسٹیٹ تھی جس کو بھارت کی تائید حاصل تھی اور اس حکومت پر بھارت نواز حکومت ہونے کا تاثر بہت گہرا تھا۔ حسینہ واجد ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر نکل گئیں لیکن ان کے ساتھ کوئی نہیں نکلا۔ حسینہ واجد کو اندرونی طو رپر فوج کی اور بیرونی طور پر بھارت اور امریکا کی سپورٹ حاصل تھی۔ حسینہ واجد 2 دہائیوں سے حکومت میں تھیں اور وہ ہر طرح سے اپنی من مانی کر رہی تھیں۔ اپوزیشن کے ساتھ جو ان کا سلوک تھا اور پھر جماعت اسلامی کے ساتھ جیسا سلوک روا رکھا گیا وہ ناقابل بیان ہے۔شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے زوال کی وجوہات کئی سیاسی، اقتصادی، سماجی، اور مذہبی عوامل کا نتیجہ تھیں۔ ان خیالا ت کا اظہار قومی سلامتی امور کی سینئر تجزیہ کار، ماہر تعلیم اور مصنفہ ڈاکٹر ہما بقائی ،ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ اسلام
آباد کی ڈائریکٹر جنرل اوردفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر ماریہ سلطان، پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد،پاکستانی ائر لائنزکیبن کریوایسوسی ایشن کے صدر نصراللہ خان آفریدی اور اسلامک اسکولز ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا کے چیئرمین عبداللہ خان نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال:حسینہ واجد کی حکومت کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟ کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ جو کچھ بنگلا دیش میں ہورہا ہے اسکی بازگشت اردگرد بھی سنائی دیتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد فرار نہیں ہوئیں ان کو محفوظ راستہ دیا گیا ہے۔حسینہ واجد کو اندرونی طو رپر فوج کی سپورٹ تھی اور بیرونی طور پر بھارت اور امریکا کی سپورٹ حاصل تھی۔ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہاکہ جس طرح بنگلا دیش میں حکومت کا تختہ الٹایا گیا اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بہت جارحانہ ہو چکا تھا۔ بھارت میں جس طرح سے شہریت کے لیے این آر سی قانون لایا گیا اسی طرز پر بنگلا دیش میں کوٹا سسٹم کے ذریعے سے ایک خاص مستقل کلاس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو وہاں کے حکمران طبقے پر مشتمل ہو۔ حسینہ واجد کی حکومت ایک بہت سخت گیر، متشدد پولیس اسٹیٹ تھی جس کو بھارت کی تائید حاصل تھی اور اس حکومت پر بھارت نواز حکومت ہونے کا تاثر بہت گہرا تھا۔ انہوںنے مطلق العنان حکمرانی کی خاطر بنگلہ دیش میں کوٹا سسٹم کے ذریعے سے ایک ایسی کلاس پیدا کرنے کی کوشش کی جو پہلے ہی سے مراعات یافتہ تھی جس نظام کے ذریعے مل میں کام کرنے والا مزدور مزدور ہی رہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کی اس حکومت نے بہت ظالمانہ قتل کروائے اور اب وہ کوٹا سسٹم کے ذریعے سے طاقت کے توازن کو مستقل اپنے حق میں کرنا چاہتی تھیں۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگلا دیش کا معاشرہ ایک متشدد معاشرہ بن چکاتھا اور اگر آپ دیکھیں تو وہاں ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کے قتل ہونے کے واقعات بھی عام ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس معاشرے میں تشدد اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکا ہے۔ مسعود خالد نے کہا کہ حسینہ واجد 2 دہائیوں سے من مانی کر رہی تھیں۔ اپوزیشن کے ساتھ جو ان کا سلوک تھا اور پھر جماعت اسلامی کے ساتھ جیسا سلوک روا رکھا گیا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت میں بھی کمی ہوئی تھی اور ان سب وجوہات کے باعث عوام کی برداشت جواب دے رہی تھی اور ان کا غیض و غضب قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ بنگلا دیش میں سیاسی تقسیم بہت زیادہ ہے، 2خواتین 2 سیاسی جماعتوں کی سربراہی کرتی ہیں اور لوگ 2 حصوں میں تقسیم ہیں۔سابق سفیر نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ ان حالات میں بہت محتاط سفارت کاری کا مظاہرہ کرے۔ نصراللہ خان آفریدی نے کہاکہ اللہ تعالی نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اس لیے وہ اشرف المخلوقات ہے،یہ بات انسان کے خمیرمیں ہے کہ وہ ہرچیزکی قربانی دے سکتاہے لیکن اپنی آزادی کوقربان نہیں کرسکتا۔ آپ نے زوال کے اسباب پوچھے ہیں تو کہا جاسکتاہے کہ اگرچہ انہوںنے اپنے ملک کو معاشی طورپرمضبوط بنایا لیکن اپوزیشن کے لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر رکھا آرمی چیف اپنا کوئی رشتہ دار لگایا اور پھر اس کے بعد اس نے ہر چیز اپنے ہاتھ میں رکھنے کی پوری کوشش کی کہ لوگوں کو دبا کر رکھا جائے۔عبداللہ خان نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے زوال کی وجوہات کئی سیاسی، اقتصادی، سماجی، اور مذہبی عوامل کا نتیجہ تھیں۔ ان عوامل کو اسلامی نقطہ نظر سے زیر غور لاتے ہوئے، موجودہ طلبہ تحریک، ملازمتوں میں تحریک آزادی میں شریک خاندانوں کے کوٹے، اور بھارت کی حامی پالیسیوں کے اثرات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت پر بدعنوانی کے سنگین الزامات تھے، جو عوامی بے چینی کا سبب بنے۔اس کے علاوہ حکومت پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات تھے، جو سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے اور عوام میں بے چینی کو فروغ دیا۔ادھر ملازمتوں میں تحریک آزادی میں شریک خاندانوں کو دیے جانے والے کوٹے نے خاص طور پر نوجوان نسل میں مایوسی پیدا کی۔ الغرض حکومت کی سیکولر پالیسیوں نے اسلامی گروہوں کی مخالفت کو جنم دیا، جبکہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات نے قومی مفادات پر سوالات اٹھائے۔ ان تمام عوامل نے عوامی بے چینی کو فروغ دیا، جس کا نتیجہ حکومت کی مقبولیت میں کمی اور زوال کی صورت میں نکلا۔
جسارت رپورٹ