حافظ محمد ادریس صاحب نے اپنے ایک آرٹیکل میں ذکر کیا ہے کہ ’’مولانا مودودی سے ایوبی آمریت کے زمانے میں ایک سوال پوچھا گیا، یہ وہ دور تھا جب ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تھی حالات غیر یقینی تھے، ایوب خان سے کسی خیر کی توقع نہیں تھی اور آرمی چیف جنرل یحیٰ خان بھی انتہائی بدنام انسان تھا۔ سوال پوچھا گیا مولانا؛ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اس کے جواب میں مولانا نے جو فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اونٹ ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس کروٹ بیٹھے گا، جب گدھے سے واسطہ پڑے تو کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، ظاہر ہے مولانا کا جواب واضح تھا، گدھا ہر جانب تیزی سے کروٹیں بدلتا ہے‘‘۔ اس وقت بھی پاکستان سیاسی، معاشی اور داخلی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس گمبھیر صورتحال سے نکلنے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیاں اور رہنما مختلف حل پیش کر رہے ہیں۔
حالیہ اس بحث سے ہٹ کر کہ پی ٹی آئی کس کے ساتھ مذاکرات کی خواہش مند ہے اور کس کے ساتھ نہیں، پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق پی ٹی آئی کے حلقوں کے تین مطالبات ہیں۔ نمبر ایک، چوری کیا گیا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ نمبر دو، گرفتار رہنما اور کارکنان کی رہائی اور مقدمات کا خاتمہ۔ نمبر تین، تیسرا مرحلہ ملک بچانے کا ہے جو صاف شفاف الیکشن کے بغیر ممکن نہیں۔ انتخابات کے مطالبہ کے لیے سیاسی جماعتوں میں بظاہر تو تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام (ف)، اے این پی اور جی ڈی اے شامل ہیں، لیکن درحقیقت یہ مطالبہ تحریک انصاف کے حلقوں کا ہے۔ سیاسی مخالفت اور موافقت سے ہٹ کر نئے انتخابات کے اس مطالبہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا عملی طور سے اسی سال انتخابات کا انعقاد ممکن بھی ہے یا نہیں؟ اور اس وقت ان حالات میں یہ مطالبہ کیوں؟
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن دو ٹوک انداز میں نہ صرف نئے انتخابات کی تجویز مسترد کر چکے ہیں بلکہ اس تجویز پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس غیر یقینی اور گمبھیر صورتحال سے نکلنے کے لیے قابل عمل حل بھی تجویز کیا ہے کہ فارم 47 کی نہیں بلکہ فارم 45 کی حکومت بنائی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن فروری 2024 کی بنیادی دستاویز فارم 45 ہمارے پاس موجود ہے جس پر تمام پولنگ ایجنٹوں اور پریزائڈنگ آفیسرز کے دستخط ہیں، یہ سب سے بہتر لیگل دستاویز ہے تو اس کی موجودگی میں ری الیکشن کا مطالبہ کیوں؟ عدالت عظمیٰ عدالتی کمیشن بنائے، فارم 45 کی بنیاد پر تمام نشستوں کا فیصلہ کیا جائے، نیز تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اور کام کریں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ فارم 45 کی بنیاد پر ایوان میں بڑے پیمانے پر مستفید پارٹی پی ٹی آئی ہے اور ایوان میں اکثریتی پارٹی بن کر حق حکمرانی حاصل کر سکتی ہے، جو جیتے ہوئے ہیں ان کو جتایا جائے اور جو ہارے ہیں ان کو ہرایا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اگر کہیں اس طریق کار کے مطابق مستفید ہوتی ہے تو وہ پورے ملک میں صرف کراچی ہے، اگر دیکھا جائے تو یہ بیانیہ غیر جانب دارانہ اور ملکی مفاد کو جماعتی مفاد پر ترجیح دینے کی ایک نادر اور قابل تقلید مثال ہے۔
ماضی میں ملکی سطح پر اپنے ایک اعلانیہ سے نمایاں ہونے والے حافظ نعیم الرحمن کا فروری 2024 کے الیکشن میں سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق اپنی جیتی ہوئی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کا اقدام ان کے پاس موجود فارم 45 کی بنیاد پر ہی تھا جس کے مطابق وہ ہار چکے تھے، ان کے اس اعلان اور اقدام کو ہر طبقہ کی طرف سے بہت سراہا گیا تھا۔ اگر فارم 45 کی بنیاد پر حکومت قائم ہو جائے تو دھاندلی میں ملوث اور اس کو قبول کرنے والے بددیانت بے ایمان ضمیر فروش لوگ عیاں بھی ہوں گے اور قوم کے سامنے ان کا مکروہ چہرہ بھی آئے گا، بصورت دیگر نئے انتخابات ہونے کی صورت میں دھاندلی کرنے والوں پر اور ان کے جرائم پر ہمیشہ کی طرح پردہ پڑا رہ جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمن کی بات منطقی ہے، فارم 45 کی بنیاد پر اگر پی ٹی آئی کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو پہلے تو وہ الیکشن ریفارم کریں تب ہی صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔ پاکستان کے الیکشن کے اب تک کہ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے چاہے 2018 کے انتخابات کی بات کی جائے یا 2024 کے انتخابات کی، آئین اور قانون سے مَاوَرا کام کرتے ہیں۔ انتخابات جیتنے کے بعد بھی ہرا دیتے ہیں، بلدیہ کراچی کے ماضی قریب کے انتخابات تو کسی کو بھولے بھی نہیں ہوں گے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے قبضہ میئر مرتضیٰ وہاب کو شہر کراچی پر مسلط کیا گیا اور حافظ نعیم الرحمن کو اکثریت کے باوجود ہرا دیا گیا تھا۔
اکثر تجزیہ نگار اور زمینی حقائق بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اس وقت جس معاشی بحران اور داخلی صورتحال سے دوچار ہے اس میں نئے انتخابات کا انعقاد خاصا دشوار گزار ہے، نئے انتخابات کے اخراجات کا تخمینہ 2024 کے انتخابات میں تقریباً 50 ارب روپے کے مصارف کے تَناظْر میں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی ایک ایک حلقہ میں کروڑوں خرچ کرتی ہیں، خیر یہ اخراجات بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے تو کوئی معنی نہیں رکھتے، ان کا ایک ہی فرد بڑے بڑے جلسے جلوسوں کے اخراجات برداشت کر لیتا ہے، لیکن بعد میں اس طرح کے افراد کا پارٹی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا احتمال بہرحال ہوتا ہے۔
آئندہ صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد اور دھاندلی سے بچنے کا درست طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ انتخابات بر وقت اور ’’متناسب نمائندگی‘‘ کی بنیاد پر کرائے جائیں۔ متناسب نمائندگی کے طریقہ کار کے مطابق حاصل کردہ پارٹی ووٹوں کی نسبت سے پارٹیوں میں اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کی جاتی ہے، خاص بات یہ کہ اس طریقے سے کسی فرد کو نہیں بلکہ پارٹی پالیسی اور منشور کو ووٹ پڑتے ہیں اور کسی رائے دہندہ کا ووٹ بھی ضائع نہیں ہوتا، جب کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ رائے دہندہ کے لیے نہ پارٹی منشور کوئی اہمیت اور معنی رکھتا ہے اور نہ ان کے وعدے، ملک کے 1970 کے انتخابات سے آج تک کے انتخابی نتائج کا تجزیہ یہی بتاتا ہے چاہے وہ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ ہو یا مسلم لیگ(ن) کا کشکول توڑنے، زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے لیے سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات، قرض اتارو اور ملک سنوارو جیسے نعرے یا پی ٹی آئی کے بھیک نہ مانگنے، کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے اپنے ہی اعلانات کے بر عکس فیصلے یا تبدیلی، 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے وغیرہ۔
انتخابی وعدوں اور پارٹی منشور کے حوالے سے تھنک ٹینک اور معاشی تحقیقاتی ادارے ’’پائیڈ‘‘ کی فروری 2024 کے انتخاب سے پہلے کی تحقیقاتی رپورٹ بہت چشم کشا تھی، جس کے مطابق مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی نے اپنے ماضی کے منشور اور سیاسی گفتگو میں قومی اہمیت کے اہم معاشی، آئینی اور سماجی معاملات پر 20 فی صد سے بھی کم اسکور کیا تھا اور اْسی رپورٹ کے مطابق ان سیاسی جماعتوں کے پاس اقتدار میں آنے کی صورت میں کام کرنے کے لیے کوئی ٹھوس خاکہ نہیں تھا۔