بنگلا دیش، ربّ کی مرضی سب پر بھاری

569

مولانا عباس علی خان کی روح کی بے چینی یقینا کم ہوئی ہوگی، پروفیسر غلام اعظم کو چین آگیا ہوگا اگرچہ سب ہی شہید ہیں لیکن اپنے لوگوں، تحریک کے بچوں اور اصل سرمایہ حیات جماعت اسلامی کے لیے زندہ رہنے والے اس وقت کیسے سکون میں رہ سکتے تھے جب ان کے بچے لاپتا کیے جارہے ہوں، پھانسیوں پر چڑھائے جارہے ہوں، چند روز قبل ظلم کی سیاہ رات میں ایک وقفہ آیا ہے، پتا نہیں کیا ہونے جارہا ہے اس انقلاب کو ہائی جیک کرلیا جائے گا یا یہ منطقی انجام کو پہنچے گا، فی الحال تو ظلم کی علامت حسینہ واجد ملک سے بھاگ گئیں، کہا جارہا ہے کہ محفوظ راستہ دیا گیا ہے، ہوسکتا ہے ایسا ہی ہوا ہو لیکن محفوظ راستہ شاہ ایران کو بھی دیا گیا تھا اور حسنی مبارک کو بھی اور پاکستان میں شریفوں اور بے نظیر بھٹو کو بھی لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ان ممالک کے عوام بیدار ہوتے ہیں تو سوتے نہیں اور ہمارے عوام بیدار ہوتے ہی نہیں، اب یہ کہنا کہ حسینہ واجد واپس آئیں گی یا کوئی اور کھیل کھیلا جائے گا، یہ کم از کم بنگلا دیش میں ناممکن ہے۔ مسلم لیگ کی جائے پیدائش، مولوی فضل حق کا مسکن، اور انگریز کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والے شہید تیتو میر کی سرزمین بنگال کے لوگوں کا سیاسی شعور پاکستان کی طرح نہیں ہے نہ ان کے سیاسی رہنما جو ذرا سی سختی پر ظالم ہی سے مذاکرات کی بھیک مانگنے لگیں، جماعت اسلامی تو ہے ہی قربانیوں سے عبارت لیکن بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی نے بھی جس عزیمت کا مظاہرہ کیا ہے وہ دنیاوی تحریکوں میں خال خال ہی ملتی ہے۔ جبر، سختیاں، سزائیں یہ سب انہوں نے بھی جھیلی ہیں۔

تو بات ہورہی تھی عباس علی خان اور پروفیسر غلام اعظم کی، مطیع الرحمن نظامی کی، عبدالقادر ملا کی، دلاور حسین سعیدی کی، میر قاسم علی اور محمد قمرالزماں کی اور اے ٹی ایم اظہر الاسلام کی، ان سب نے ربّ کی مرضی کی خاطر حق کا علم بلند کیا اسے تھامے رہے اور پھانسیوں کو بھی ربّ کی مرضی سمجھ کر قبول کیا، یہ سب چاہتے تو ایک جملہ معافی کا لکھ کر پھانسی سے بچ جاتے لیکن ان لوگوں نے جھوٹ پر زندہ رہنے کے بجائے سچ پر قائم رہتے ہوئے موت کو ترجیح دی، کیونکہ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو راضی بہ رضا رہنے والے تھے۔ دوسری طرف ظلم تھا جس کی اوقات ہی کیا ہے، حسینہ واجد نے اپنی مرضی کا الیکشن کمیشن بنایا، اپنی مرضی کے قوانین بنائے، اپنی مرضی کے عدالتی فیصلے کرائے، نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل بھی مرضی کا تھا اور فیصلے بھی مرضی کے حتیٰ کہ اپنے رشتہ دار کو اپنی مرضی کا آرمی چیف بنایا لیکن ربّ کی مرضی تو کچھ اور تھی، اللہ کی مرضی والوں کو پچاس سال جس نام سے طعنے دیے، وہی طعنہ رجا کار (رضاکار) حسینہ واجد کی حکومت لے ڈوبا۔ پورے بنگلا دیش میں جماعت اسلامی والوں کو پاکستان بچانے کی جنگ میں پاک فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں رجا کار کہا جاتا تھا جو غدار کے معنوں میں بولا جاتا تھا، ان کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، ان کی پھانسیوں پر کرائے کے لوگ جیلوں کے سامنے لاکر مظاہرے کروائے گئے جن میں لوگ رجا کاروں کو پھانسی دینے پر خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ان میں طوائفیں بھی لائی جاتیں جنہیں سول سوسائٹی کہا جاتا تھا، اور آج نصف صدی کے بعد اسی مجیب کی بیٹی نے تمام مظاہرین کو رجاکار کہہ دیا اور بس پھر تو ہر احتجاجی کارکن رجا کار بن گیا، یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ ہر مظاہرے میں یہی کہا جارہا تھا کہ تم کون، میں کون، اور جواب آتا تھا رجا کار، رجا کار۔ نفرت کی علامت لفظ فخر کا نعرہ بن گیا، اور صرف بیس دنوں میں اللہ کی مرضی آگئی بیس سال کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ مرضی کی عدالتیں منہ دیکھتی رہ گئیں مرضی کے وزرا گھر اور ساتھ چھوڑ گئے اور مرضی کے آرمی چیف نے اقتدار سے نکال دیا، یہ بات طاقت کے نشے میں سمجھ میں نہیں آتی کہ ربّ کی مرضی سب پر بھاری ہوتی ہے۔

بنگلا دیش میں 53 برس میں تیسری نسل جوان ہوئی ہے، انہیں ماضی سے کاٹنے کی کیا کیا کوششیں نہیں ہوئی ہوں گی۔ لیکن ربّ کی مرضی کے آگے جان دینے والی پاک روحوں کو سلام ہے کہ انہوں نے تحریک کا پورا ورثہ منتقل کیا اور آج کی اسلامی چھاترو شبر مطیع الرحمن نظامی کی چھاترو شبر بن کر دکھا رہی ہے، آج بھارت بھی تکلیف میں ہے کہ کشمیر سے بنگال تک ایک ہی تحریک ہے جو اسے چیلنج کررہی ہے، آج رضاکار سجدہ شکر بجالائے ہیں، یہ اور بات ہے کہ جن کے وہ رضاکار کہلاتے ہیں وہ اب بھی انہیں فراموش کیے بیٹھے ہیں۔

ربّ کی مرضی ہماری مرضی کے تابع نہیں ہوتی وہ تو ربّ کے اشارے کی منتظر ہوتی ہے اور کوئی اس کا راستہ نہیں روک سکتا، اور اس کے راستے پر چلنے والوں کے لیے راستے کھل جاتے ہیں، پاکستان میں بھی اپنی مرضی کی حکومت، اپنی مرضی کا ایکشن کمیشن اپنی مرضی کی عدالت اور اپنی مرضی کے فیصلوں کا چلن ہے لیکن کب تک، ایک طرف مرضی والے ہیں اُلٹے سیدھے تماشوں والے ہیں اور دوسری طرف یہ کہنے والے ہیں کہ
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اور ان کا تو اپنا نعرہ ایسا ہے کہ ہمیشہ سے قابل فخر رہاہے کہ
تیرا میرا رشتہ کیا … لا الہ الا اللہ
اس رشتے میں پاکستان کے ہر صوبے اور آزاد کشمیر کے عوام پرو دیے گئے ہیں، اس نعرے اور رشتے نے پورے ملک کے لوگوں کو ایک کردیا ہے اور آج بنگلا دیش کے رضاکاروں نے پاکستانیوں کے نعرے کو زندہ کردیا ہے کہ
تیرا میرا رشتہ کیا … لا الہ الا اللہ

یہی نعرہ تو اس ملک کے قیام کا سبب بنا تھا اور جب اس نعرے کو قوم پرستی کے نعروں کی بھینٹ چڑھایا گیا تو ملک ٹوٹ گیا، اور بنگلا دیش بن گیا، اس رشتے کو مضبوط بنایا جائے، تو ملکوں کی جغرافیائی تقسیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ حالیہ طلبہ احتجاجی تحریک کو محض طلبہ کی تحریک نہیں کہا جاسکتا، جو لوگ اس کی قیادت کررہے ہیں وہ ابوبکر موجمدار، ناہید اسلام اور آصف محمد ہیں، ان کی عمریں زیادہ نہیں لیکن ان میں تدبر کی کمی نہیں، اس تحریک نے بنگلا دیش کے سنگین حالات میں بھی ہندووں کے مندروں کو تحفظ دیا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ مستقبل میں بنگلا دیش میں کسی انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔