پانچ دن قبل جب ڈھاکہ کی سڑکوں پر مظاہرین کرفیو کی صریح خلاف ورزی کر رہے تھے تب فوج نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کا جانا ٹھیر چکا ہے۔ پیر 5 اگست کو لاکھوں افراد نے گھروں سے نکل کر عوامی لیگ کی حکومت کو چلتا کرنے کا عمل مکمل کیا۔ یہ سب کچھ ڈھاکہ میں اُترا، شاہ باغ، کاروان بازار اور فارم گیٹ کے علاقوں سے شروع ہوا۔ سب کی ایک ہی منزل تھی … گونو بھوبون یعنی وزیر ِاعظم کی سرکاری رہائش گاہ۔ ایسے میں یہ خبر آئی کہ آرمی چیف جنرل وقارالزماں دن کے دو بجے قوم سے خطاب کریں گے۔ پھر ملک بھر سے مظاہرین کی تصویریں آنے لگیں جن میں اُنہیں فوج کی تعیناتی کا خیرمقدم کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ اب یہ خبر بھی آئی ہے کہ فوج نے تو پانچ دن قبل شیخ حسینہ واجد کو پیغام دے دیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔ مظاہرین میں سابق فوجی بھی پائے گئے۔ ڈھاکہ سمیت ملک بھر میں حالات اِتنے خطرناک تھے کہ لوگ ڈر رہے تھے کہ کہیں ایک بار پھر فوج اقتدار پر قبضہ نہ کرلے۔
بنگلا دیش کی 53 سالہ تاریخ میں فوج نے 29 بار بغاوت کی کوشش کی ہے! پہلی فوجی بغاوت ملک کے قیام کے صرف چار سال بعد یعنی اگست 1975 میں ہوئی تھی جس میں ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمن اور اُن کے خاندان کو (ماسوائے دو بیٹیوں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ) قتل کردیا گیا تھا۔ شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے پر سوشل میڈیا پر فوجی حکمرانی کا خدشہ ظاہر کیا جانے لگا۔ آرمی چیف نے قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک بہتر زمانے کی طرف جائے گا۔ بنگلا دیش کے مصنف اور کالم نگار شفقت ربی نے انڈیا ٹوڈے سے گفتگو میں کہا کہ گیند اب جرنیلوں کے کورٹ میں ہے۔
بنگلا دیشی جمہوریت پر فوج کے سائے ہمیشہ اور گہرے رہے ہیں۔ 2009 سے بنگلا دیش پر شیخ حسینہ کی حکومت تھی۔ پھر بھی بنگلا دیش پر فوج کی حکمرانی کی تاریخ بہت طویل ہے۔ 15 اگست 1975 کے خونیں ’’انقلاب‘‘ نے بنگا بندھو شیخ مجیب کو خاندان کے 18 افراد سمیت ختم کردیا۔ تب سے 1991 تک بنگلا دیش میں فوج حکمران رہی۔ بنگلا دیش کی فوج پاکستانی فوج کی طرح طاقتور تو نہیں تاہم پھر بھی سیاست پر اُس کا سایا بہت گہرا رہا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن اور اُن کے خاندان کو جونیر فوجی افسران کے ایک دستے نے قتل کیا اور اِس عمل کو ’’تاریخی ضرورت‘‘ کہا۔
شیخ مجیب کی سیکولر حکومت کے بعد خوندکر مشتاق احمد کی اسلامی حکومت آئی۔ 1975 میں میں 3 نومبر اور 7 نومبر کو فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ اِس کے بعد تو فوجی بغاوتوں کا سلسلہ ہی چل پڑا۔ 3 نومبر کی فوجی بغاوت نے خوندکر مشتاق احمد کو برطرف کیا۔ 3 نومبر کو بغاوت برپا کرنے والا مشرف 7 نومبر کی بغاوت میں مارا گیا۔ وہ بائیں بازو کے فوجیوں کا لایا ہوا تھا اور جاتیہ سماج تانترک دل کی حمایت بھی اُسے حاصل کی۔ اس بغاوت نے ضیاء الرحمن کو جیل سے نکالا اور پھر اُنہوں نے صدر بن کر اقتدار سنبھالا۔ اُنہوں نے بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی قائم کی جس کی قیادت اب اُن کی بیوہ خالدہ ضیاء کے ہاتھ میں ہے۔
بنگلا دیش سے سیکولر ازم رخصت ہوا۔ فوج کو رہنا تھا۔ ضیاء الرحمن نے آئین میں ترامیم کیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ دینے والے قانون کو اُنہوں نے باضابطہ حیثیت دی۔ انہوں نے مسلم لیگ اور جماعت ِ اسلامی پر سے پابندی بھی ختم کی۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگلا دیش میں بھی ضیاء کا سامنا تھا اور دونوں ضیاء اسلام پسند تھے۔ ضیاء الرحمن پر کئی بار قاتلانہ حملہ ہوا اور بالآخر 30 مئی 1981 کو وہ چٹو گرام (چٹاگانگ) میں قتل کردیے گئے۔ ضیاء الرحمن کے تعینات کیے ہوئے جنرل حسین محمد ارشاد نے کسی خون خرابے کے بغیر 24 مارچ 1982 کو اقتدار سنبھالا۔ اے ایف ایم احسان الدین چودھری کو علامتی صدر بنایا گیا جبکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تمام معاملات حسین محمد ارشاد کے ہاتھ میں تھے۔
1990 میں خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ کی عوامی تحریک نے حسین محمد ارشاد کو ایوانِ اقتدار سے نکلنے پر مجبور کیا۔ 1990 میں ایوانِ اقتدار سے نکل کر بھی حسین محمد ارشاد کی طاقت برقرار رہی اور انہوں نے 1996 میں شیخ حسینہ کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ کے درمیان اقتدار کی کشمکش سے عبارت رہا۔
2006 میں بی این پی اور جماعت ِ اسلامی کی حکومت ختم ہوئی اور 2007 میں آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل معید احمد نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوج کے تعاون سے فخرالدین احمد وزیر ِاعظم بنے۔ 2009 میں پھر اقتدار سنبھالنے کے بعد شیخ حسینہ نے عبوری حکومت کا نظام ختم کردیا۔ اُن کا استدلال تھا کہ غیر منتخب لوگوں کو انتخابی عمل کی نگرانی کا حق نہیں ملنا چاہیے۔ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے 2008 کا الیکشن جیتا۔ 2009 میں بنگلا دیش رائفلز نے بغاوت کی کوشش کی۔ 2011 میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی کوشش کے نام پر بغاوت فوج نے ناکام بنائی۔ شیخ حسینہ کے بھارت فرار ہونے کے بعد بنگلا دیش ایک بار پھر اُسی پرانے دو راہے پر کھڑا ہے۔ ملک جشن منارہا ہے مگر کچھ لوگ خوفزدہ بھی ہیں کہ کہیں ملک کی ابتدائی تاریخ خود کو نہ دُہرا بیٹھے۔ (انڈیا ٹوڈے)