بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہونے کے بعد فرار ہوکر، توقع کے عین کے مطابق، بھارت پہنچی ہیں۔ خیال تھا کہ وہ بھارت سے امریکا یا برطانیہ کا رخ کریں گی مگر ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے وہ فوری طور پر کامیاب نہ ہوسکیں گی۔
بھارت میں شیخ حسینہ کا قیام طول پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ انہیں دارالحکومت دہلی کے نزدیک غازی آباد میں انڈین ایئر فورس کی بیس میں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان کے لیے سیکیورٹی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت کے لیے یہ بہت مشکل گھڑی ہے کیونکہ شیخ حسینہ کی زندگی واقعی خطرے میں ہیں۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے سروں پر اس وقت خون سوار ہے۔ مودی سرکار کو خدشہ ہے کہ کوئی بنگلہ دیشی سرپھرا موقع پاتے ہی شیخ حسینہ کو دنیا سے چلتا کرسکتا ہے۔
امریکا اور برطانیہ نے شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے سے فی الحال اس لیے گریز کیا ہے کہ اُن کے ہاں کسی بھی شخصیت کو ٹھہراکر اُس کی سیکیورٹی کے نام پر عوام کے لیے مشکلات کھڑی نہیں کی جاسکتیں۔
دہلی میں شیخ حسینہ کا کے قیام کے طول پکڑنے کے امکان نے مودی سرکار کے لیے دردِ سر کی شکل اختیار کرلی ہے۔ غازی آباد کی ایئر بیس پر بیسیوں کمانڈوز کو تعینات کیا گیا ہے۔ بھارت شیخ حسینہ کو فی الحال کہیں اور جانے کا بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ اُن کا شمار بھارت کے انتہائی حلیف بنگلہ دیشی سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔
برطانیہ اور امریکا میں عوامی لیگ اور شیخ حسینہ سے “کُھنّس” رکھنے والے بنگلہ دیشیوں نے خاصی ہنگامہ آرائی کی ہے۔ امریکا میں بنگلہ دیشیوں کے ایک مشتعل ہجوم نے بنگلہ دیش کے ایک قونصلیٹ میں گھس کر شیخ مجیب الرحمٰن اور شیخ حسینہ واجد کی تصویروں کو نکال پھینکا۔
مودی سرکار ڈرتی ہے کہ کہیں ایسے ہی واقعات بھارت میں بھی رونما ہوں۔ یہی سبب ہے کہ عوامی لیگ کے رہنماؤں کو پناہ یا سیاسی پناہ دینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ مودی سرکار نہیں چاہتی کہ بنگلہ دیش کا بحران اُس کے ہاں بھی رُو بہ عمل ہو۔
برطانیہ میں سیاسی پناہ کے حصول کے حوالے سے وضاحت نہیں ہو پارہی۔ برطانوی حکومت بھی کھل کر کچھ نہیں کہہ رہی۔ لگتا تو یہی ہے کہ وہ بھی شیخ حسینہ کو اپنے ہاں بلاکر اپنے لیے کوئی دردِ سر مول نہیں لینا چاہتی۔ برطانیہ میں بھی شہری آزادیوں کا معاملہ بہت مضبوط ہے یعنی شیخ حسینہ کی سیکیورٹی کے نام پر کسی آبادی کو پریشان نہیں کیا جاسکتا۔