دھرنا، آئی پی پیز اور خونیں انقلاب

381

ہنری دوم نے کہا تھا ’’کیا کوئی مجھے اس پریشان کرنے والے پادری کی مداخلت بے جا سے نجات نہیں دلائے گا‘‘ اور اس کے مصاحب تلواریں سونت کر تھامس بیکٹ پرٹوٹ پڑے لیکن حافظ نعیم کا کیا کیا جائے۔ ان کے خلاف کون سی تلواریں نکالی جائیں۔ ان کا دھرنا ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں، یہ تو وقت کی پکار ہے۔ اب وقت کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ بجز مطالبات تسلیم کرنے کے کوئی راستہ نہیں ہے۔ دن زیادہ روشن ہوگیا ہے۔

ویسے تو اس ملک میں سب کچھ مکاری ہے۔ حکومت مکاری ہے، اسٹیبلشمنٹ مکاری ہے، معیشت مکاری ہے، بازار مکاری ہے، تجارت مکاری ہے، تعمیر مکاری ہے، تخریب مکاری ہے، صفائی مکاری ہے، صحت عامہ مکاری ہے، تعلیم مکاری ہے، وزارت مکاری ہے، عہدہ مکاری ہے لیکن آئی پی پیز معاہدے!!! مکاری کی وہ انتہا، اختیارات کا وہ نہایت ظالمانہ استعمال ہیںکہ اگر یہ آلائشیںصاف ہو جائیں تو کافی کچھ خودبخود سنبھل جائے۔ ہم جہاں کہیں بھی گھر بناتے ہیں، زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں آئی پی پیز معاہدوں کی بدولت مرتب ہونے والے بجلی کے بلوں کی ہولناکی اور ظلم سے نمٹنا ہمارے بس میںنہیں ہوتا۔

نادر شاہ کے حملے ڈگمگاتی مغل بادشاہت کی بربادی کا ایسا مستقل بندوبست نہیں تھے جیسا ہماری بربادی کا مستقل اور مسلسل انتظام آئی پی پیز معاہدوں نے کیا ہے۔ ہمارے نادر شاہ ایران سے آکر حملہ آور نہیں ہوئے بلکہ یہ بیش تر پاکستانی ہی ہیں جو ہم پر حملہ آور ہیں۔ منشا گروپ چار آئی پی پیز کے مالک ہیں، حبیب اللہ گروپ کے پاس چھے آئی پی پیز ہیں۔ ایگرو گروپ بھی آئی پی پیز کے مالک ہیں۔ میاں محمد عبداللہ کے سیفائرگروپ کے پاس چھے آئی پی پیز ہیں، غیر ملکی فرم این جی فرانس کے پاس دو آئی پی پیز ہیں۔ جہانگیر ترین کے پاس تین آئی پی پیز ہیں۔ حسین دائود گروپ کے پاس تین آئی پی پیز ہیں۔ شمیم خان گروپ کے پاس دو آئی پی پیز ہیں۔ ندیم بابر دو آئی پی پیز کے مالک ہیں۔ سلیمان شہباز شریف گروپ ایک آئی پی پی کے مالک ہیں۔ رزاق دائود گروپ ایک آئی پی پی کے مالک ہیں۔

وہ سرزمین ہمارے حکمرانوں اور بد معاشیہ کے ذہنوں میں کہیں موجود نہیں جہاں انسانیت لنگر انداز ہوتی ہے اس لیے پہلے مرحلے میں حکمرانوں کی کوشش تھی کہ حافظ نعیم دھرنا نہ دے سکیں۔ ہر وہ قدم اٹھایا گیا جس سے دھرنا اسلام آباد میں ممکن نہ ہوسکے۔ اسلام آباد جانے والے راستے کنٹینر لگا کر بند کردیے گئے۔ موٹر وے سمیت تمام شاہراہیں بھی بند کردی گئیں۔ تحریک انصاف ہوتی تو یہیں نعرہ لگادیتی ’’چک دے پٹھے‘‘۔ ساری لڑائی ڈی چوک پر ہی ہوگی۔ حافظ نعیم کو جماعت کی جس تربیت نے منتخب کیا ہے اس میں صحت فکر اور پاکیزگی سے پرامن طریقے سے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ پھر دھرنا تو دھرنا ہوتا ہے۔ ڈی چوک نہ سہی لیاقت باغ سہی۔ ساری انتظامیہ ڈی چوک پر لگی رہی حافظ نعیم لیاقت باغ آگئے۔ عوامی طاقت کہیں بھی کرامات کی فصل اُگا سکتی ہے۔

دھرنا دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کو اللہ نظر بد سے بچائے۔ اگر مطالبات نہ مانے گئے توحافظ صاحب مہینوں کی بات کررہے ہیں۔ گوئٹے کے الفاظ میں ’’کل ہونا اور کل میں شریک ہونے کے لیے‘‘ کتنے دن اور کتنے لوگوں کو وہاں جمع رکھا جاسکتا ہے؟ استقلال سے ایک مقصد کے لیے جدوجہد کرنے میں جماعت کے لوگ بے مثل ہیں۔ گرمی اور حبس کے موسم میں کھلے آسمان تلے زمین پر براجمان رہنے والے یہ لوگ استقامت کے معنی بھی جانتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہونا بھی۔ ابھی پورے ملک سے جماعت کے کارکنان نے لیاقت باغ کارخ نہیں کیا ہے۔ جماعت کی دوستی اور جماعت سے محبت وہ جذبے ہیں جو لمحاتی نہیں ہوتے سو لوگوں کی ایک بڑی اور بہت بڑی تعداد کا اکٹھا کرنا یہ جماعت کے لیے کوئی ایشو نہیں۔

حکومت نے اگر مطالبات نہ مانے تو کیا حافظ نعیم اسلام آباد کا رخ کریں گے؟ حافظ نعیم کے بلند عزائم دیکھیں تو ان کے پا س کامیابی کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اپنی امارت کے چند ہی ہفتوں میں انہوں نے جس طرح جماعت کو متحرک کیا ہے، جس طرح ہر طرف جماعت کے ڈنکے بج رہے ہیں اس میں خالی ہاتھ گھر جانا آپشن نہیں ہوسکتا۔

حافظ نعیم صاحب نے جو دس مطالبات پیش کیے ہیں وہ حکومت کے لیے دس پیہم تلواریں ہیں جنہیں وہ آسانی سے تسلیم نہیں کرے گی حالانکہ وہ پاکستان کی آواز ہیں۔ بجلی کے بلوں میں پچاس فی صد رعایت، سلیب ریٹ کا خاتمہ، آئی پی پیز سے کپیسٹی پیمنٹ کے معاہدوں کی تنسیخ، تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکسوں کے ظالمانہ بوجھ کی واپسی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںکمی، 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو 50 فی صد رعایت اور پٹرولیم لیوی کا خاتمہ۔ جماعت اسلامی کا مزید مطالبہ ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرکے غیرترقیاتی اخراجات پر 35 فی صد کٹ لگایا جائے، کیپسٹی چارجز اور آئی پی پیز کو ڈالروں میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کیا جائے اور آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ عوام کی گردنوں پر یہ وہ بوجھ ہیں جن سے وہ دوہرے ہوئے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی اس بوجھ کے خاتمے کے لیے جدوجہد کررہی ہے کسی اور سیاسی اور دینی جماعت کو جس کا ادنیٰ درجے میں بھی خیال نہیں۔ کیا پاکستان کے عوام اس حسن سلوک کے مستحق نہیں ہیں؟

تحریک انصاف نے دھرنے میں شمولیت سے انکارکیا ہے۔ حکمران طبقہ وہ ن لیگ ہو پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف اندروں سب ایک ہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں آئی پی پیز کے ساتھ تیس معاہدوں کی تجدید کی گئی تھی۔ پاکستان میں ظلم سیکڑوں سمتوں میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ اس حکمران طبقے کی پیہم غارت گری کا نتیجہ ہے تحریک انصاف بھی جس کا حصہ ہے۔ تحریک انصاف میں آئی پی پی مالکان کی حیثیت بہت مضبوط ہے اس لیے تحریک انصاف کسی ایسی مہم کا حصہ بننے پر تیار نہیں جس سے آئی پی پی مالکان کو نقصان پہنچے۔ تحریک انصاف صرف اپنے لیے جدوجہد کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ وہ گڈ ٹو سی یو ججوں کی معاونت سے منزل پر پہنچنا چاہتی ہے۔

جماعت اسلامی راہ دکھا رہی ہے کہ کامیاب ارباب سیاست وہ ہیں جو عوام کے دکھوں کے ازالے کی سیاست کرتے ہیں۔ یہ دھرنا حکومت گرانے کے لیے نہیں ہے۔ حکومت کے حصول کے لیے بھی نہیں ہے۔ یہ دھرنا خالصتاً عوام کے لیے ہے۔ جس دلدل میں ہم سب پھنس گئے ہیں یہ دھرنا ہمیں اس دلدل سے باہر نکالے گا۔ آئی پی پیز کے مالکان کو سوچنا ہوگا۔ وہ چنگیز اور ہلاکوخان کی اولاد نہیں ہیں۔ اسی دھرتی کی پیداوار ہیں۔ وہ پاور پروجیکٹس سے اربوں روپے کما چکے ہیں۔ ایک آدمی کو آخر کتنی زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ ایسا نہ ہو تنگ آکر حافظ نعیم کی قیادت میں یہ قوم آئی پی پیز مالکان کے محلات کے باہر دھرنا دے رہی ہو۔ تھامس جیفرسن نے اپنی خود نوشت میں لکھا تھا ’’اگر کوئی ملکہ نہ ہوتی توکوئی انقلاب بھی نہ آتا‘‘۔ پاکستان میں لگتا ہے یہ آئی پی پیز ہی کسی بڑے اور خونیں انقلاب کا باعث بنیں گے اور مورخ لکھے گا ’’اگر آئی پی پیز نہ ہوتے تو پا کستان میں کوئی خونیں انقلاب بھی نہ آتا‘‘۔