پانچ اگست کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے ریاست جموں وکشمیر کے عوام یوم استحصال منا رہے ہیں۔ جلسے جلوس ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں اور دنیا کے کئی بڑے مراکز اور دارالحکومتوں میں کشمیری تارکین وطن اپنا احتجاج ریکارڈ کروار ہے ہیں۔ کئی مقامات پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو مخاطب اور متوجہ کرنے کے لیے یاداشتیں ارسال کی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں احتجاج پر ناروا پابندیوں کے باوجود جا بجا ایسے پوسٹر دکھائی دے رہے ہیں جن میں بھارت کے ظالمانہ قدم کو مسترد کیا گیا ہے۔ ان پانچ برسوں میں پہلی بار بھارت کے اندر بھی 5 اگست 2019 کا فیصلہ ایک عدالتی کارروائی کے باعث موضوع بحث بنا رہا۔ بھارتی میڈیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس مسئلے کو رپورٹ کرتا رہا۔ بھارت کے چوٹی کے وکیل کشمیر مسئلے کی تاریخی حیثیت اور جزیات اور کشمیر یوں کی شناخت پر بہت جاندار دلائل کا سہارا لے کر یہ ثابت کرتے رہے کہ پانچ اگست کا فیصلہ بھارت کی سلامتی کے لیے ضروری نہیں تھا جیسا کہ نریندر مودی بھارتی رائے عامہ کو باور کراتے رہے ہیں مگر ہوا وہی جو افضل گورو کیس میں ہوا تھا کہ عدلیہ نے انصاف کے بجائے عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کا راستہ اختیار کیا اور بھارتی حکومت کے فیصلے کی توثیق کر دی گئی اور اس کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کی ریاستی شاخت یعنی اسٹیٹ ہْڈ بحال کرنے اور رواں برس تیس ستمبر تک ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد کرانے کا حکم دیا۔ بھارتی عدالت کا یہ فیصلہ کشمیریوں کی محض اشک شوئی تھا۔ بہر حال پانچ سال بعد بھی مودی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہے اور کشمیر دبائے جانے کے باوجود کسی نہ کسی انداز میں بول رہے ہیں اور دنیا ان کی کتھا سننے پر مجبور ہے۔
پانچ اگست کو کشمیر بھارت کے شب خوں کا شکار ہوا ہے۔ یہ حقیقت دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کو خصوصی شناخت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں مگر یہ یہ بھوت اب بھی بھارت اور مودی کے ساتھ چمٹ گیا ہے۔ ان پانچ برسوں سے مقبوضہ کشمیر ایک جیل، ایک مقتل اور ایک تعذیب خانہ بنا ہوا ہے۔ اسمبلی ہے نہ آئین۔ انسانی جانوں کو تو پہلے ہی کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا اب ملازمتوں اور جائدادوں کو بھی تحفظ حاصل نہیں رہا۔ گوکہ کشمیر کی یہ حالت پہلے بھی تھی مگر اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد بھارت نے سارے پردے اور حجاب ختم کرکے کشمیر کی خصوصی اور الگ حیثیت کو مٹا ڈالنے کا راستہ اپنایا۔ بھارت نے یہ تاثر دیا کہ اب کشمیر اس کی کالونی ہے اور جس طرح چاہے سلوک روا رکھے۔ اسی اصول اور ذہن کے تحت کشمیر کو الگ حیثیت دینے والے تمام قوانین کو بدل دیا گیا۔ اب بھارت کا کوئی بھی شہری کشمیر میں زمین خریدنے اور ملازمت کرنے کا حقدار ہے۔ کشمیر کی مقامی شناخت رکھنے والی جماعتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا اور ان کی جگہ بھارت کے نئے موقف اور نئے زمینی حقائق کو قبول کرنے والی جماعتیں متعارف کرائی گئیں۔ کشمیریوں کی مذہبی شناخت اور علامتوں کو آہستہ روی کے ساتھ کمزور کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ جامع مسجد جیسی تاریخی عمارت اور کشمیریوں کی مذہبی شناخت کی سب سے توانا علامت جامع مسجد چار سال سے تالہ بندی کا شکار رہی۔ بھارتی حکومت لاکھوں ہندوؤں کو ریاست کی شہریت دے چکی ہے اور ابھی لاکھوں کو مزید دینا باقی ہے۔ یہ آبادی کا تناسب تبدیل کرکے فلسطین ماڈل لاگو کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کشمیریوں کی زمینوں کو حیلوں بہانوں سے ہتھیانے کا عمل زروں پر ہے۔ بے نامی جائداد، مشکوک اور غیر قانونی جائداد کے نام پر سیکڑوں گھروں اور زمینی قطعوں کو قبضے میں لیا گیا ہے ان جائدادوں کو غیر کشمیریوں کو الاٹ کرکے مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش جارہی ہے۔
بھارت کا مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر تمام اختیارات کو مجموعہ اور مرکز ومحور ہے اور اس کا حکم حرف آخر ہے اس حکم کو نہ کسی اسمبلی سے اجازت کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اپنے کسی فعل کے لیے دہلی کے سوا کسی اور عوام فورم پر جواب دہی کا پابند ہے۔ کشمیریوں سے آزادی اظہار اور آزادی اجتماع کا حق چھین لیا گیا ہے۔ میڈیا بے روح اور بے جان ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کشمیر میں گزر ہی ممکن نہیں رہا۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والا آخری مقامی کردار خرم پرویز جیل میں مقید ہے۔ کشمیریوں کی ’’انڈینائزیشن‘‘ کی موہوم امید پر شروع ہونے والا یہ کھیل کشمیریوں کو بھارت سے مزید دور کررہا ہے۔ کیونکہ وادی کا جو طبقہ بھارت سے دوری پر کھڑا ہے اس نے کبھی دفعہ 370 کی باریکیوں اور پرنظر نہیں رکھی۔ اس کی نظر آئینی موشگافیوں کے بجائے سیاسی پیچیدگی پر رہی جس کا تعلق کشمیر میں بھارت کی فوجی موجودگی سے تھا۔ مسئلہ آئینی نہیں بلکہ سیاسی ہے جس کی جڑیں دور بہت دور یعنی تقسیم ہند تک پھیلی ہیں۔ اسی لیے پانچ سال کے سخت انتظامی اقدامات کے باوجود حالات قابو میں نہیں آرہے۔ بھارت کا کشمیر پر انتظامی کنٹرول سخت ہوگیا مگر اس کی حیثیت کاغذ کی ناؤ جیسی ہے۔ زمین پر عوامی جذبات کا وہی عالم ہے جو پانچ سال پہلے موجزن تھے۔ بھارت نے ان پانچ برس میں کشمیر میں اپنے بڑے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ جن میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا شامل ہے اور کشمیریوں کی زمینوں اور جائدادوں کو سرکاری تصرف میں لینا ہے۔ یہ اسی فلسطین ماڈل کا آغاز ہے جس کا خدشہ کشمیر کے حوالے سے مدتوں سے محسوس کیا جا رہا تھا۔ یہاں تک حال ہی میں لوک سبھا کے منتخب ہونے والے نیشنل کانفرنس کے رکن آغا سید روح اللہ مہدی نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر کا بجٹ بھی دہلی سے بن کر آرہا ہے یہ ایک ایسی آبادی اور علاقے کے ساتھ ظلم اور جمہوریت کی نفی ہے کہ جو اپنا آئین اور شاخت رکھتا تھا۔ انہوں نے نریندر مودی اور امیت شاہ کی موجودگی میں کہا کہ کشمیری پانچ اگست کے فیصلے کو مسترد کر چکے ہیں۔ اس طرح پانچ سال بعد بھی پانچ اگست کے فیصلے کا بھوت مودی کو تنگ کر رہا ہے۔