اسماعیل ہنیہ کا قتل اور اسرائیل، امریکا ایرانی غداروں کا اتحاد

530

اسماعیل ہنیہ کے قتل سے اسرائیل اور امریکا دونوں ہی انکاری ہیں لیکن عالم اسلام اور عام مسلمان امریکا اور اسرائیل کے انکار کے باوجود اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ قتل ان دونوں اور ایران میں موجود غداروں کے اتحاد سے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے پوری دنیا کے مسلمان آنکھ بند کر کے یقین کر نے کو تیار ہیں۔ لیکن اس رپورٹ کو آگے بڑھانے سے قبل حماس کے ترجمان خالد قدومی نے کہا کہ ہفتے کو بتایا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر حملے میں پوری عمارت لرز گئی تھی، حملے کے بعد عمارت کی چھت اور دیوار ٹوٹ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کا جسد خاکی گھر پہنچنے پر جذباتی مناظر دیکھے گئے فلسطینی اداس ہو گئے ہیں۔ نمائندہ حماس نے بتایا کہ امریکی اخبار نے بم نصب کرنے کی ایسی کہانی شائع کی جیسے یہ بم خود اس رپورٹر نے لگایا تھا، فلسطینیوں کو ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو گفتگو نہیں کرنا چاہتا، قتل و غارت ہی کرتا ہے۔

مسلمانوں کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ عالم اسلام کی اتنی بڑی شخصیت کی شہا دت کی تفتیشی رپورٹ بھی عالم کفر کے اخبارات پیش کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں کیا حقیقت کیا افسانہ ہے یہ گتھی تو برسوں سلجھائی نہیں جاسکے گی۔ لیکن اس موقع پر اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایرنی فورس کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا اور اب حقیقت سامنے آرہی ہے اس سے یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ اس پوری صورتحال نے ایران کے لیے مشکل اور خطرات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اب جو حقیقت سامنے آرہی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ عالمی طاقتوں نے ایران کو ایک غیر محفوظ ملک بنا دیا ہے جہاں صدر اور سرکاری مہمان بھی غیر محفوظ ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایران کے شہید صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت کے وقت کیا جانا تھا لیکن سخت سیکورٹی کی وجہ ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

دنیا کل بھی یہی کہہ رہی تھی اور آج بھی اسی طرح کی آوازیں گونج رہی ہیں کہ ایران نے اگر اپنے صدر کی شہادت کے وقت ساری حقیقت دنیا کے سامنے رکھ دی ہوتی تو ایران کو اس قدر خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جیسا کہ آج ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کر نے کے لیے 2 ماہ سے منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔ ایرانی حکومت نے اسماعیل ہنیہ کے قتل میں ملوث 24 ملزمان کو گرفتار کیا ہے لیکن برطانوی اخبار ٹیلی گراف یہ بھی اطلاعات دے رہا ہے کہ اسرائیلی موساد نے ایرانی ایجنٹوں کی مدد سے گیسٹ ہاؤس کے 3 کمروں میں پہلے ہی دھماکا خیز مواد نصب کیا تھا، اور دھماکا خیز مواد نصب کرنے والے ایجنٹ ایران چھوڑ چکے تھے۔ ان تینوں کو ایک اسلامی ملک میں سیاسی پناہ بھی مل چکی ہے۔

اس سلسلے میں ہفتے کو پاسداران انقلاب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کو کم فاصلے سے مار کرنے والے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کو اس حملے میں امریکا کی مدد شامل تھی۔ ایرانی پاسداران انقلاب کا کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کو شارٹ رینج پروجیکٹائل سے نشانہ بنایا گیا۔ پروجیکٹائل میں 7 کلوگرام کا وارہیڈ استعمال کیا گیا۔ پاسداران انقلاب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر حملے کا بدلہ شدید ہوگا، مناسب وقت، جگہ اور طریقے سے بدلہ لیں گے۔ اس سلسلے میں برطانوی اخبار ٹیلی گراف یہ بھی رپورٹ دے رہا ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے جنازے میں شرکت کے موقع پر اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا جانا تھا، تاہم نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر یہ اقدام کیا گیا، اور دھماکا خیز مواد ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے قتل کرایا۔ اس سلسلے میں پاکستان میں موجود علماء ِ اہل تشیع بھی اپنی مجالس میں یہی کہتے رہے ہیں ایران میں بہت ہی حساس اہمیت کے ادارے بھی ایران دشمنوں سے محفوظ نہیں ہیں۔

اخبار کے مطابق ایرانی حکام کے پاس گیسٹ ہاؤس کے کمروں میں ایجنٹوں کے انتہائی تیزی سے آنے جانے کی ویڈیو بھی موجود ہے۔ دوسری طرف برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 روز میں ایران کے رہبر اعلیٰ متعدد بار تمام کمانڈروں کو طلب کر چکے ہیں، وہ ان سے جواب کے خواہاں ہیں، اور ان کے نزدیک سیکورٹی کی خلاف ورزی کو حل کرنا اب بدلہ لینے سے زیادہ اہم ہے۔ اس سے قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کی شہادت ان کے کمرے میں نصب دھماکا خیز مواد پھٹنے سے ہوئی، جو ریسٹ روم میں 2 مہینے قبل چھپایا گیا تھا اور بم کو ریموٹ کنٹرول سے اْس وقت پھاڑا گیا جب اسماعیل ہنیہ کی اپنے کمرے میں موجودگی کی تصدیق ہوئی اس تصدیق کے لیے دھماکے سے قبل ایک ڈاکٹر کو کمرے میں بھیجا گیا تھا۔ اس دھماکے میں اْن کا ذاتی محافظ بھی شہید ہوا۔ واضح رہے اسماعیل ہنیہ شمالی تہران کے جس گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے وہ جس کمپاؤنڈ میں واقع ہے، اس کا کنٹرول ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے پاس تھا۔ اسی کمپاؤنڈ میں الجہاد کے سربراہ بھی قیام پذیر تھے اور یہ کمپاؤنڈ کئی سرکاری عمارات کے ایک سلسلے کا حصہ ہے جسے ’نشاط‘ کہا جاتا ہے۔ حماس سربراہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری کے لیے تہران آئے تھے اور ایک روز قبل انہوں نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔ جہاں سے نکلتے وقت ان کو شہید کرنے کا مکمل انتظام کیا جاچکا تھا لیکن اخباری رپورٹ کے مطابق ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ وہاں شہید نہیں گیا۔

یہ ساری صورتحال اپنی جگہ لیکن مغربی میڈیا اس پوری صورت کو اپنی فتح قرار دے رہا ہے اس قبل رواں سال ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر اتوار 19مئی کو حادثے کا شکار ہو گیا تھا یہ حادثہ صوبہ مشرقی آذربائیجان میں پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں صدر ابراہیم رئیسی، وزیرِ خارجہ حسین امیر عبدالہیان، تبریز میں نمازِ جمعہ کے امام آیت اللہ آلِ ہاشم، مشرقی آذربائیجان کے گورنر جنرل مالک رحمتی سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کی مذہبی حکومت کے وہ مخالفین جو بیرونِ ملک مقیم ہیں ان میں سے اکثر نے یورپ کے کئی بڑے شہروں میں ایرانی سفارت خانوں یا قونصل خانوں کے باہر بھرپور انداز سے جشن منایا۔ وائس آف امریکا متعدد ویڈیوز بھی اس موقع پر جاری ہوئی تھی جس میں برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک اور نیدر لینڈز سمیت دیگر ملکوں میں ایرانی شہری صدر رئیسی کی موت پر جشن منا رہے ہیں اور موسیقی پر رقص کر رہے ہیں۔ اب بھی اسرائیل کے حکومتی ارکان کا ردِعمل ایسا ہی ہے۔ ان سب کو سیٹلائٹ فون فراہم کر دیا گیا ہے اور پورے عالم اسلام پر حملے کے لیے امریکا یورپی یونین اور برطانیہ تیاریوں میں مصروف ہے اور عالم اسلام کے حکمران بلا کی خاموشی سے خوب موج مستی میں مصروف ہیں اور غزہ میں ہر دن قتل عام جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا؟