متنازعہ پنجاب و سندھ لیبر کوڈ2024 محنت کشوں کے بنیادی حقوق سلب ہونے کا خدشہ!

332

مزدور قوانین، مزدور ضابطہ(Labour Code) یا ملازمتی قوانین سے مراد وہ قوانین ہیں جو کارکنوں، ملازمتی اداروں اور حکومت کے درمیان ثالثی انجام دیتے ہوں اور اجتماعی مزدور قوانین سے مراد وہ قوانین ہیں جو کارکنوں ،آجران اور حکومت کے درمیان سہ فریقی تعلقات سے متعلق ہوں۔ ملک میں ایسے 16 درج ذیل بنیادی مزدور قوانین رائج ہیں جن پر تمام کارخانوں، صنعتی، کاروباری اور تجارتی اداروں کے لئے عملدرآمد کرنا لازمی ہے۔
ـ1- ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ مجریہ 1976ء
ـ2- صوبائی ملازمین سماجی تحفظ آرڈیننس مجریہ 1965ء
ـ3- صنعتی و تجارتی ملازمت ( احکامات قائمہ) آرڈیننس مجریہ 1968ء
ـ4- ملازمین کے بچوں کی تعلیم آرڈیننس مجریہ 1972ء
ـ5- کم از کم اجرت آرڈیننس مجریہ 1961ء
ـ6- اجرتوں کی ادائیگی آرڈیننس مجریہ 1936ء
ـ7- کارکنوں کا معاوضہ ایکٹ مجریہ 1923ء
ـ8- کارخانہ داری ایکٹ مجریہ 1934ء
ـ9- دکانیں اور ادارے آرڈیننس مجریہ 1969ء
ـ10- کمپنییز منافع ( کارکنوں کی شرکت) ایکٹ مجریہ 1968ء
ـ11- معذور افراد( ملازمت اور بحالی) آرڈیننس مجریہ1981ء
ـ12- زیر تربیتی آرڈیننس مجریہ 1962ء
ـ13- مغربی پاکستان زچگی فوائد آرڈیننس مجریہ 1962ء
ـ14- کارکنوں کی بھلائی کا فنڈ آرڈیننس مجریہ1972ء
ـ15- صنعتی تعلقات کا قانون مجریہ 2010ء
ـ16- صنعتی تعلقات کا قانون ایکٹ مجریہ 2012ء
ملک میں طویل عرصہ سے جاری سیاسی عدم استحکام اور سنگین معاشی بحران کے دوران صوبہ پنجاب اور سندھ کے محکمہ ہائے محنت و انسانی وسائل کی افسر شاہی نے پس پردہ مفادات کے تحت موقع غنیمت جانتے ہوئے اور بد نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریبا 8 کروڑ افرادی قوت پر مشتمل محنت کش طبقہ کو تر نوالہ سمجھتے ہوئے طے شدہ سہ فریقی مشاورت کے بغیر ہی بالا ہی بالا بنیادی مزدور قوانین پنجاب – سندھ لیبر کوڈ- 2024ء کے نام پر من من مانے طریقہ سے غیر معمولی تبدیلی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملک کے کروڑوں محنت کشوں کے بنیادی حقوق سلب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ جبکہ ملک کی اہم مزدور فیڈریشنوں نے لیبر کوڈ-2024 کے مسودہ پر غور و خوض کے بعد اسے مزدور دشمن قرار دیتے ہوئے یکسر طور پر مسترد کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق حال ہی میں حکومت پنجاب اور حکومت سندھ کے محکمہ ہائے محنت و انسانی وسائل نے اپنے صوبوں میں رائج بالترتیب 25 اور 21 مزدور قوانین کو یکدم ختم کرکے اپنے اپنے صوبوں میں ایک نئے یکساں لیبر کوڈ کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسے مجوزہ پنجاب لیبر کوڈ- 2024 اور مجوزہ سندھ لیبر کوڈ -2024 کا نام دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ دونوں صوبائی حکومتوں نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ عالمی ادارہ محنت (ILO) ،جنیو اکے اشتراک سے یہ لیبر کوڈ تیار کیا ہے۔

مزدور قوانین کے ماہرین کے مطابق ان مجوزہ لیبر کوڈز کے دو منفی پہلو خاص طور پر اہم ہیں۔ اول اس میں صنعتوں میں رائج بدترین استحصالی ٹھیکیداری نظام (Contractual system) کو قانونی شکل دی گئی ہے۔ دوم ،اس مسودہ قانون میں صنعتی ،کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں خدمات انجام دینے والے محنت کشوں کے بنیادی حقوق، ٹریڈ یونین سرگرمیوں اور اجتماعی سودے کاری ایجنٹ(CBA) کو ختم کرکے محنت کشوں کے ہڑتال کے حق کو تقریبا ختم کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملک بھر کی بڑی لیبر فیڈریشنز اور محنت کش طبقہ میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے۔ کیونکہ بادی النظر میں اس مجوزہ لیبر کوڈ میں دستور پاکستان اور مروجہ مزدور قوانین کے تحت حاصل محنت کشوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پنجاب اور سندھ مجوزہ لیبر کوڈ-2024 کا مسودہ 318 صفحات ،6.6 ابواب، 440 دفعات اور 9 شیڈول پر مشتمل ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان لیبر کوڈز کا مسودہ انگریزی زبان میں تیار کیا گیا ہے اس کی پیچیدہ قانونی اور تکنیکی اصطلاحات کے باعث کم تعلیم یافتہ محنت کشوں کی اکثریت اس مسودہ کو کما حقہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں وفاقی حکومت کی جانب سے شعبہ محنت کے لئے قانون سازی کرتے وقت جملہ قانونی مسودہ جات اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تیار کئے جاتے تھے۔ لیکن 2010ء￿ میں ہونے والی اٹھارویں دستوری ترمیم کے نتیجہ میں شعبہ محنت صوبوں کو منتقل کئے جانے کے بعد یہ سلسلہ متروک ہوگیا ہے۔

ہمیں پچھلے دنوں پاکستان ورکرز فیڈریشن(PWF) کے جنرل سیکریٹری وقار احمد میمن کی دعوت پر ارتقاء انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کراچی میں متنازعہ مجوزہ سندھ لیبر کوڈ-2024 کے موضوع پر منعقدہ ایک آگہی نشست میں شرکت کا موقعہ ملا۔ جس میں ممتاز ٹریڈ یونین رہنماؤں اور محنت کشوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس موقعہ پر ماہر مزدور قوانین ، محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی وکالت کرنے والے اور لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (LUMS) لاہور کے پروفیسرمحمد عمرعلی نے برصغیر میں مزدور قوانین کی تاریخ ، مزدور تحریک کے پس منظر اور عالمی سطح پر مزدور قوانین کے فلسفے اور رحجانات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت تفصیل کے ساتھ مزدور دشمن مجوزہ لیبر کوڈ-2024 کی ایک ایک شق کا مروجہ مزدور قوانین سے موازنہ کرتے ہوئے ایک سیر حاصل تنقیدی جائزہ پیش کیا۔

جس کے مطابق مجوزہ لیبر کوڈز کی تیاری کے دوران مزدور قوانین کے تحت مقررہ سہ فریقی طریقہ کار کے مطابق آجران اور کارکنوں کے نمائندوں سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ جو عالمی ادارہ محنت کے 1976ء کے توثیق شدہ کنونشن C1-44 اور1976ء کی سفارشات برائے سہ فریقی مشاورت نمبر 152 کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ جس میں پاکستان سمیت تمام رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ پالیسی ساز اداروں میں حکومت اور آجران کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو بھی نمائندگی دی جائے اور ان سے کارکنوں کے جملہ معاملات میں لازمی طور پر مشاورت کی جائے۔
(جاری ہے)