مکڑی کا جالا (آخری حصہ)

503

اسرائیل کے معاشی قوت ہونے کے بھی بڑے چرچے ہیں۔ بڑی آبادی کے بغیر کوئی ملک ایک معاشی قوت کیسے بن سکتا ہے؟ امریکا اگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے تو اس کی آبادی 33 کروڑ سے زائد ہے، چین اور بھارت میں سے ہر ایک ڈیڑھ ارب آبادی کے ملک ہیں، جرمنی نو کروڑ لوگوں کا ملک ہے، جاپان تیرہ کروڑ لوگوں کا ملک ہے تب معاشی ترقی سے ہم آہنگ ہوکر وہ معاشی قوت بنے ہیں۔ بیس ہزار کلو میٹر رقبہ، ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والے اسرائیل کے پاس وہ ایکو سسٹم کیسے وجود میں آسکتا ہے کہ وہ معاشی طاقت بن جائے۔ یہ ایک مصنوعی طاقت ہے جس کی ساری طاقت کرائے کی طاقت ہے، پرائی طاقت ہے۔ اس کا ساٹھ فی صد تیل قازقستان اور آذربائی جان سے آتا ہے۔ اس کا صرف بیس فی صد رقبہ زراعت کے قابل ہے۔ اس ملک کو اب تک امریکا ’’158 ارب ڈالر‘‘ امداد دے چکا ہے اس کے باوجود ہر جنگ میں امریکا کو اس کی مدد کے لیے آنا پڑتا ہے اور خود ایمونیشن اور اس کی سپلائی مینج کرنی پڑتی ہے۔ اسرائیل کی آدھی جی ڈی پی غیرملکی امداد پر مبنی ہے۔ ساری انڈسٹری، ساری انوسٹمنٹ، فوجی سامان سب پرایا ہے۔ یہ امریکی امداد کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ پچھتر برس بعد بھی یہ مکمل طور پر امریکی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ اگر اسرائیل بڑی طاقت ہوتا تو یوں امریکا سے امداد مانگتا؟

غزہ جنگ کے ابتدائی مہینے میں ہی امریکا نے چودہ بلین ڈالر امداد اسرائیل کو دی ہے۔ یہ صرف امریکا کی ایک چوکی ہے اور امریکی امداد کے بغیر چند مہینے اور چند دن تو درکنا چند گھنٹے بھی نہیں چل سکتا۔ ان کا پورا انڈسٹریل بیس چند راکٹ کی مار ہے۔ امریکا یوکرین کو روس جیسی بڑی طاقت سے مقابلہ کرنے کے لیے کچھ اسلحہ دے رہا ہے لیکن یہودی وجود کو ایک ملیشیا سے لڑنے کے لیے دو بحری بیڑے روانہ کرنا پڑے ہیں کیونکہ امریکا کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے فوجی کتنے بزدل ہیں، اس کی فوجی طاقت کتنی مصنوعی ہے۔

دنیا کی بڑی طاقتوں نے فضائی قوت میں اضافے کی مد میں بہت سرمایہ جھونکا ہے لیکن یہ فضائی قوت زمینی حملوں میں فیصلہ کن ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ہم سوویت یونین کو دیکھ چکے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکا کو دیکھ چکے ہیں۔ یہودی وجود کو ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس بیس راکٹ پہلے حملے میں ہی اُڑا دیے گئے تھے۔ جس ائر فورس کو یہ طاقت سمجھتے ہیں ان کی کمزوری ہے کیو نکہ چند ائر پورٹ رن وے اُڑادیں ان کے طیارے نہ اُڑنے والی بطخیں بن جائیں گے۔ پاکستان کے ابابیل میزائیل سسٹم کے لیے یہ معمولی سا کام ہے۔ اگر ترکی اور مصر اسرائیل پر فضائی پابندی لگادیں یہ درختوں اور پتھروں کے پیچھے چھپتے پھریں گے اس حال میں خوفزدہ، کہ درخت اور پتھرکہیں ہمارے بارے میں بتا نہ دیں۔ یہودی وجود ابھی تک اس لیے برقرار ہے کہ اردن کا شاہ عبداللہ اس کا محافظ ہے اور مغربی کنارے سے ایک گولی اسرائیل کی طرف چلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہودی وجود اس لیے محفوظ ہے کہ مصر کے حکمران انورسادات، حسنی مبارک اور آج کے فرعون جنرل سیسی نے اس کی حفاظت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ یہ اس لیے محفوظ ہے کہ بشارالاسد گولان کی پہاڑیوں سے اسرائیل کی طرف ایک راکٹ فائر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہودی وجود اس لیے محفوظ ہے کہ حزب اللہ صرف زبانی جمع خرچ کرتی ہے تاکہ اپنی افواج کو مطمئن رکھ سکے۔ یہ اس لیے محفوظ ہے کہ ایران زبانی بیانات اور امریکا سے طے کردہ حملوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ یہودی وجود اس لیے محفوظ ہے کہ پاکستان کے حکمران عرب حکمرانوں کی طرف دیکھتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔ اور پھپھوندی زدہ مذمتوں سے آگے نہیں بڑھتے۔ اسرائیل عرب اور مسلم حکمرانوں کی پرچھائی اور ان کا سایہ ہے۔ جب یہ حکمران ختم ہوجائیں گے اسرائیل بھی ختم ہوجائے گا۔

اسرائیل کے پاس پانچ سو آرٹلری 64 سے زیادہ میزائل لانچرز 354 ہوائی جہاز اور 142 ہیلی کاپٹرز۔ کچھ سب میرین کچھ وارشپ ہیں۔ یہ سب امریکا نے دیا ہوا ہے۔ اسرائیل کے پاس جو کچھ ہے مصر اور ترکی صرف ایک ملک کے پاس اس سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ ملک اس یہودی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹاسکتے ہیں۔ اردن اور پاکستان کے لیے یہ کام چند گھنٹوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اسرائیل کے اوپر نو فلائی زون کی پابندی لگادی جائے تو اس کی قوت ڈھیر ہوجائے۔ پاکستان کے بلیسٹک کروز میزائلوں کا استعمال تو بہت دور کی بات ہے۔ اسرائیل دنیا کی پندرھویں بڑی فوجی طاقت ہے پاکستان ساتویں بڑی فوجی طاقت ہے۔ یہودی صرف فوج اور اسلحے سے لڑتے ہیں ہم فوج اور اسلحے کے ساتھ ساتھ ایمان کی طاقت سے لڑتے ہیں۔ اس یہودی وجود کے خاتمے کے لیے کسی اسلامی ملک کی فوج ہی نہیں محض دو ڈویژن فوج ہی کافی ہے۔ ایک مرتبہ اسلامی افواج اس سرزمین میں داخل ہوگئیں پھر امریکا بھی اسے نہیں بچا سکے گا کیو نکہ امریکا پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ مسلم ممالک میں زمینی فوج کے ساتھ داخل نہیں ہوگا کیونکہ وہ آج بھی عراق اور افغانستان میں لگے زخم چاٹ رہا ہے۔ یہ یہودی وجود ہماری سوچ اور ہمارے وہم وگمان سے زیادہ کمزور ہے۔ یہ صرف ایک امریکی اڈہ ہے جسے مسلمانوں کے قلب میں پیوست کیا گیا ہے جسے چاروں جانب سے مسلمانوں نے گھیرا ہوا ہے۔ عرب صرف تھوک دیں تو یہ یہودی وجود ڈوب جائے۔ یہودی وجود کی طاقت کچھ نہیں سوائے سات دہائیوں سے ایک جھوٹ کی تکرار کے۔ حماس نے غزہ کی جنگ آغاز کرکے مسلمان ممالک کو بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسرائیل کی طاقت کی حقیقت دنیا پر آشکار کردیں۔

مگر یہ مسلم ممالک اور ان کے مغرب کے ایجنٹ حکمران جو امریکی خوش نودی سے مشروط اپنے اقتدار کی بقا کے لیے نہ صرف اسرائیل کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کرتے بلکہ اسے ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں۔ جس دن یہ حکمران اقتدار سے ہٹ گئے اور اسرائیل کی مدد سے کنارہ کش ہوکر مسلم غیرت وحمیت کا مظاہرہ کریں گے یہ مکڑی کا جالا بکھر کررہ جائے گا۔ غزہ کے شہری شاطی کیمپ میں صہیونی بمباری سے تباہ ہونے والے اسماعیل ہنیہ کے گھر کے کھندرات پر ان کی تصاویر اٹھائے کھڑے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب پوری امت مسلمہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے غزہ کے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہوگی، شہید اسماعیل ہنیہ کی یادیں دل میں بسائے ہوئے۔